وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اور اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور (نافرمانی سے) بچتے رہو۔ اور اگر تم (اس حکم سے) منہ موڑو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف صاف طریقے سے (اللہ کے حکم کی) تبلیغ کردیں۔
فہم القرآن : (آیت 92 سے 93) ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول نے خمر، جوئے اور دیگر محرمات سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ اس حکم پر عمل کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچو۔ قرآن مجید نے بار ہا اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ رسول کی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے پیغام من و عن لوگوں تک پہنچائے اور اس پر خود عمل کرکے اپنے آپ کو نمونہ کے طور پر پیش کرے۔ تاکہ لوگوں کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے۔ یہاں یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ممنوعات سے بچنا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی بیان فرمایا جو کچھ تمھیں رسول دیتا ہے اسے قبول کرو اور جس سے روکتا ہے اس سے رک جاؤ کیونکہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ یہاں ماضی کے حوالے سے ایک استفسار کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ جب شراب حرام ہونے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا حال ہوگا جو شراب پیتے تھے اور اسی دور میں فوت ہوگئے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد) اس فرمان میں تقویٰ، ایمان اور عمل صالح کو لازم ملزوم قرار دیا کیونکہ تقویٰ کے بغیر ایمان قابل قبول نہیں اور ایمان صالح اعمال کے بغیر آدمی کو خاطر خواہ فائدہ نہیں دیتا۔ پہلی مرتبہ تقویٰ اور ایمان کے بعد صالح اعمال کا ذکر کیا ہے اور دوسری مرتبہ ایمان کو تقویٰ سے مقدّم رکھتے ہوئے صالح اعمال کی جگہ ﴿اَحْسِنُوْا﴾ کا لفظ استعمال فرما کر محسنین کو اپنی محبت کا یقین دلایا ہے۔ احسان کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ حقیقتاً عمل صالح ہوتا وہی ہے جس میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ اور اسے اس جذبہ کے ساتھ بجا لایا جائے گویا کہ انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر اس کی منشا کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ جب کسی کام کی ادائیگی میں یہ جذبہ اور تخیل پیدا ہوجائے تو نہ صرف نیکی کرنے میں ذوق شوق پیدا ہوتا ہے بلکہ اس انداز سے نیکی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کی لذّت محسوس کرتا ہے۔ اس طرح اسے دنیا میں ہی رب کریم کی محبت کا کیف محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ نیکی کی قبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ کچھ مفسرین نے تقویٰ اور ایمان کے تکرار کے بارے میں لکھا ہے کہ اس تکرار سے مراد تقویٰ اور ایمان میں مبالغہ مقصود ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ تقویٰ اور ایمان کی تکرار سے اس کے مختلف درجات مراد ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا نَادٰی جِبْرِیلَ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّہُ فَیُحِبُّہُ جِبْرِیلُ فَیُنَادِی جِبْرِیلُ فِی أَہْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوہُ فَیُحِبُّہُ أَہْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ یُوضَعُ لَہُ الْقَبُولُ فِی أَہْلِ الْأَرْضِ)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو بلا کر فرماتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرائیل (علیہ السلام) اس سے محبت کرتے ہوئے آسمان والوں کے سامنے اعلان کرتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے تو تم بھی اس سے محبت کرو اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس بندے کے لیے زمین میں شرف قبولیت بخش دیا جاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی ہی اطاعت کرنی چاہیے۔ 2۔ رسول مکرم (ﷺ) کے حکم سے اعراض نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ کسی بھی چیز کا حکم سامنے آجانے پر اس پر عمل کرنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: تقویٰ اور اس کے فائدے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد :35) 2۔ صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود :49) 3۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر :45) 4۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : 26۔27)