يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے رسول ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ( اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا۔ یقین رکھو کہ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
فہم القرآن : ربط کلام : اس سے پہلے آیت 58میں مسلمانوں کی طرف یہود ونصارٰی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ہماری اس لیے مخالفت کرتے ہو کہ ہم اپنے رب پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ پھر یہو دو نصارٰی کی با ہمی دشمنی کا ذکر کیا ہے اور سمجھایا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے زمانے میں تورات اور انجیل پر عمل کرتے تو دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے ہم کنار ہوتے۔ اب نبی (ﷺ) کو فرمایا جارہا ہے کہ آپ ان کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھیں اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ الرّسول سے مراد سرور دوعالم (ﷺ) کی ذات اقدس ہے یہاں لفظ الرّسول استعمال فرما کر آپ کو باور کروایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول یعنی اس کی طرف سے پیغام رساں ہیں، لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں اور دشمن کتنا ہی طاقتور اور مخالف کیوں نہ ہو آپ کو ہر حال میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام من وعن پہنچانا ہے۔ اگر آپ نے اس میں ذرہ برابر کوتاہی کی تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ آیت مبارکہ اعلان نبوت کے پندرہ سال بعد غزوۂ احد کے معرکہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے آپ قدم بقدم رسالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے یہاں کے حالات کے پیش نظر آپ کے ساتھ مسلح پہرے دار موجود ہوتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان نہیں فرمایا اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا جب آپ کی حفاظت کا فرمان نازل ہوا تو آپ نے اپنا پہرہ ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ اب مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات اور سیرت طیبہ سے سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے کٹھن حالات میں آپ نے لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے کام کیا اور جتنے آپ پر شب خون مارے گئے اور حملے کیے گئے شاید ہی دنیا کے کسی مصلح پر اتنے حملے کیے گئے ہوں۔ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں جن المناک واقعات کا تفصیلی احاطہ کیا ہے ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ 1۔ آپ (ﷺ) کی ذات اقدس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آپ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا جس سے مکہ میں ہلچل پیدا ہوئی اور لوگ آپ پر حملہ آور ہوئے حضرت خدیجہ (رض) کے پہلے خاوند سے بیٹے حارث بن ابی حالہ آپ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے یہ اسلام کے پہلے شہید تھے۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ ) 2۔ ابوجہل نے پتھر سے آپ (ﷺ) کا سر مبارک کچلنے کی کوشش کی حالانکہ آپ بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز تھے جو نہی وہ آگے بڑھا تو ایک خونخوار اونٹ اس کو دبوچنے کے لیے دوڑا آرہا تھا ابو جہل گھبرا کر پیچھے کی طرف بھاگا۔ اپنے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اگر میں ایک قدم اور آگے بڑھتا تو اونٹ مجھے کھا جاتا۔ میں نے اتنا خوفناک اونٹ آج تک نہیں دیکھا (ابن ہشام۔ الرحیق المختوم ) 3۔ آپ (ﷺ) بیت اللہ میں کھڑے ہو کر توحید کا پیغام سنارہے تھے کہ مشرکین آپ پر ٹوٹ پڑے جن میں عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اتنے بل دیے کہ آپ کا چہرہ مبارک خون سے سرخ ہوگیا اور بے ساختہ آواز نکل گئی اس موقع پر اچانک حضرت ابوبکر صدیق (رض) آن پہنچے۔ انہوں نے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی جس پہ ان کو اس قدر پیٹا گیا کہ وہ کئی دن تک اٹھنے کے قابل نہ رہے۔ (رواہ البخاری : کتاب المناقب فضائل ابو بکر) 4۔ جناب عمر (رض) کا مشہور واقعہ کہ آپ (ﷺ) کو قتل کرنے کے ارادے سے باہر نکلے۔ راستے میں انہیں بتایا گیا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں جسے سنتے ہی عمر اپنی بہن کے گھر گئے اور بہن اور بہنوئی کو پیٹنا شروع کردیا۔ 5۔ آپ کی عظیم جدوجہد سے مجبور ہو کر مکے کے زعماء ابوطالب کے پاس جا کر پیشکش کرتے ہیں کہ آپ مکہ کے نامور سردار ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو قبول فرمائیں اور اس کے بدلے محمد (ﷺ) کو ہمارے حوالے کردیں۔ ان کا مقصد رسول کریم (ﷺ) کو قتل کرنا تھا۔ (ابن ہشام، الرحیق المختوم) 6۔ ہجرت سے پہلے رات کے وقت آپ (ﷺ) کے گھر کا گھیراؤ کرنا تاکہ آپ صبح کے وقت نکلیں تو یکبارگی حملہ کرکے آپ کا کام تمام کردیا جائے (الانفال آیت 30کی تفسیر دیکھئے) 7۔ ہجرت کے دوران 100اونٹ کے لالچ میں سراقہ بن مالک کا پیچھا کرنا تاکہ زندہ یا قتل کرنے کی صورت میں انعام حاصل کیا جائے (بخاری کتاب الانبیاء باب ہجرت النبی (ﷺ) 8۔ غزوۂ بدر کے بعد صفوان بن امیہ کا عمیر بن وہب کو قتل کے ارادے سے مدینہ بھیجناعمیر جب آپ کے پاس پہنچا تو آپ (ﷺ) نے بذریعہ وحی اسے پوری بات بتلائی کہ صفوان بن امیہ نے تیرا قرض چکانے اور اہل وعیال کی ذمہ داری اٹھائی ہے تاکہ تو مجھے قتل کردے یہ سن کر عمیر بن وہب ششدر رہ گیا۔ اس نے اس بات کا اقرار کیا اور ساتھ ہی مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ تفصیل جاننے کے لیے ابن ہشام اور الرحیق المختوم کی طرف رجوع کریں۔ 9۔ ثمامہ بن اثال کی گرفتاری کا مشہور واقعہ ہے جس کی تفصیل میں الرحیق کے مصنف لکھتے ہیں کہ یہ بھی آپ (ﷺ) کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلا تھا لیکن گرفتار ہوگیا اور آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ 10۔ مدینہ میں آپ (ﷺ) ایک قضیہ کے تصفیہ کے لیے یہودیوں کے محلے میں تشریف لے گئے آپ کی گفتگو کے دوران یہودیوں نے ایک آدمی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ چپکے سے مکان پر چڑھ کر بھاری پتھر لڑھکائے جس سے آپ جانبر نہ ہوسکیں لیکن بذریعہ وحی آپ کو خبر ہوئی آپ اس سے پہلے ہی اٹھ کر چلے آئے۔ (الرحیق المختوم) 11۔ خیبر کے موقع پر آپ (ﷺ) کو ختم کرنے کے لیے یہودی عورت کا آپ کی دعوت کرنا جس میں زہر ملا دیا گیا تھا لیکن لقمہ منہ میں ڈالتے ہی آپ کو احساس ہوا جس سے آپ نے کھانا چھوڑ دیا تاہم یہ زہر اس قدر ہلاکت انگیز تھا کہ وفات کے وقت بھی آپ نے اس کے زہریلے اثرات بڑی شدت کے ساتھ محسوس فرمائے۔ (بخاری کتاب الطب) 12۔ صلح حدیبیہ کے بعد اشاعت دین کے لیے رسول محترم (ﷺ) نے مختلف حکمرانوں کو مراسلات لکھے جن میں ایران کے فرما نروا خسرو پرویز کو بھی خط لکھا اس نے نہ صرف آپ کا نامہ مبارک پھاڑ دیا بلکہ یمن کے گورنر کو حکم دیا کہ نبوت کے دعویدار کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیجا جائے تب یمن کے اہلکاروں نے آپ کے پاس آکر خسروپرویز کا حکم نامہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے گرفتاری پیش نہ کی تو آپ کے علاقے کو تہس نہس کردیا جائے گا۔ (ابن ہشام، بخاری) 13۔ یہود کی تمام سازشیں اور شرارتیں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے ایک بہت بڑے جادوگر کے ذریعے آپ (ﷺ) پر جادو کا ایسا وار کیا جس سے کئی ہفتے آپ کی طبیعت انتہائی پریشان، مضمحل اور بے چین رہی، رات کی نینداڑ گئی اور دن کا چین جاتارہا اس حالت میں جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے جادو کا علاج بتلاتے ہوئے اس کنویں کی نشاندہی فرمائی جہاں آپ کا مجسمہ بنا کر آپ کے بالوں کو گرہیں دیتے ہوئے جادو کیا گیا تھا۔ تفصیل جاننے کے لیے (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، کتاب الادب) (میری کتاب جادو کی تباہ کاریاں اور ان کا شرعی حل) 14۔ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر آپ (ﷺ) اسلحہ اتار کر ایک درخت کے نیچے آرام فرماتھے کہ ایک دشمن قبیلے کا آدمی موقعہ پاکر آپ کی تلوار لہراتے ہوئے کہتا ہے کہ اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے کسی مرعوبیت کے بغیر فرمایا اللہ ہی مجھے بچانے والا ہے یہ سنتے ہی اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی وہ معافی کا خواستگار ہوا آپ نے اسے معاف کردیا بعض روایات کے مطابق وہ شخص آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد) 15۔ عمیر بن وہب کا واقعہ نمبر 8گزر چکا ہے اس کا بیٹا فضالہ فتح مکہ کے موقع پر کافر تھا فتح کے بعد جب آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو اس نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جسے آپ بھانپ گئے آپ نے اسے قریب بلاکر اس کے مذموم ارادے سے متنبہ فرمایا تو وہ فوراً مسلمان ہوگیا۔ (الرحیق المختوم ) 16۔ اسلام کا پیغام حجاز کی سرزمین سے گزر کر روم کی سرحدات میں پہنچ چکا تھا جس وجہ سے روم کے حکمران اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے تھے انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر اپنی افواج کو پیش قدمی کے لیے تیار کیا اس صورت حال کو دبانے کے لیے رسول اکرم (ﷺ) نے 30000ہزار مجاہدین لے کر روم کے دروازے پر دستک دی آپ کا جرأتمندانہ اقدام دیکھ کر رومی سامنے آنے کی تاب نہ لا سکے۔ کچھ دن قیام کرنے کے بعد آپ مدینہ واپس آرہے تھے کہ رات کی تاریکی میں منافقوں نے آپ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا کہ جب آپ کسی تنگ گزرگاہ کے درمیان پہنچیں تو آپ پر یکبارگی حملہ کردیا جائے منافقوں کے جتھے نے چہرے چھپائے ہوئے تھے تاہم وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے حذیفہ بن یمان کو حکم دیا کہ منافقوں کی سواریوں کو دور ہانک دیاجائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ (ﷺ) نے انہیں منافقوں کے نام بتائے اور کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے نام کسی اور کو نہ بتلائے جائیں۔ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ المنافقین، ابن ہشام، الرحیق المختوم) 17۔ آپ (ﷺ) کے خلاف آخری سازش عامر بن طفیل نے تیار کی جس نے بئر معونہ کے مقام پر ستر قرّاء کو شہید کر وایا یہ ایک وفد لے کر مدینہ آیا اور منصوبے کے تحت آپ سے گفتگو کر رہا تھا کہ اس کے ایک ساتھی نے آپ (ﷺ) کے پیچھے ہو کر تلوار کا وار کرنا چاہا جس کی بذریعہ وحی آپ کو خبر ہوگئی آپ نے ان کی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے درگزر سے کام لیا تاہم اس کے لیے بددعا کی جس کی وجہ سے وہ ذلیل ہو کر مرا۔ (رواہ البخاری : کتاب المغازی) مسائل :1۔ رسول اکرم (ﷺ) کو من وعن شریعت پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا۔ 2۔ نبی کریم (ﷺ) کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا تھا۔ 3۔ شریعت کا انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔