فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ
چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے، تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں : ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑے گا (٤٤) لیکن) کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے (٤٥) اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی تھی۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : منافقین کی دلی کیفیت اور ان کے قلبی خوف کو طشت ازبام کیا گیا ہے۔ منافقانہ عقیدہ اور کردار کو قرآن مجید ایک مرض قرار دیتا ہے جس میں آدمی کفر و اسلام کے درمیان تذبذب کا شکار رہتے ہوئے ہمیشہ دنیاوی مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ یہی حالت رسول اکرم (ﷺ) کے زمانے میں منافقین کی تھی۔ جب انھیں اس روش سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی تو وہ اپنے جذبات کو ان الفاظ میں بیان کرتے کہ ہم فریقین کے ساتھ اس لیے تعلقات رکھے ہوئے ہیں کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونے کی صورت میں ہمیں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دینے کے ساتھ منافقین کو انتباہ کر رہا ہے کہ جس بات سے تم ڈرتے ہو۔ وہ عنقریب ہو کر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح سے نوازے گا یا اپنی طرف سے کامیابی کا دوسرا راستہ کھول دے گا۔ جس میں منافقین کے لیے ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ غزوۂ بدر سے لے کر غزوۂ تبوک تک منافقوں کو معمولی فائدہ پہنچنے کے سوا ہر قدم پر ندامت اور خفت اٹھانا پڑی آخرت میں ان کے لیے ذلت اور نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ سورۃ البقر ۃ کے دوسرے رکوع میں منافقین کی عادات کا ذکر ہوا۔ جس میں ہم نے لکھا ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے جس کا معنی ہے کہ چوہے کی ایسی بل جسکے دو منہ ہوں، اگر ایک منہ بند کیا جائے تو چوہا دوسری طرف سے نکل جاتا ہے جب تک دونوں بل کے منہ بند نہ کیے جائیں چوہا قابو میں نہیں آسکتا۔ منافق کی یہی حالت ہوتی ہے۔ کہ جب تک بیک وقت کفار اور مسلمانوں کی طرف سے دھتکارا نہ جائے اسے نقصان نہیں ہوتا۔ منافق اس نقصان سے بچنے کے لیے ددنوں فریقوں سے رابطہ رکھتا ہے۔ اس آیت میں ان کی اسی کمزوری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا کا یہ مفاد منافقین کو آخرت کے نقصان سے نہیں بچا سکتا اگر مسلمان منافقین کو سمجھ جائیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک کریں جس کے کرنے کا حکم قرآن دیتا ہے تو منافق دنیا میں بھی ذلیل ہوجائیں گے جس طرح نبی اکرم (ﷺ) کے زمانے کے منافق بالآخر رسوا ہوئے تھے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اٰیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمَنَّ خَانَ) (رواہ مسلم : باب خصائل المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔1 جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے 2 جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے 3 جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ (متفق علیہ) مسلم شریف میں ان الفاظ کا اضافہ ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“ مسائل :1۔ منافق یہود ونصاریٰ سے دوستی کرتے ہیں۔ 2۔ مومنوں کی کامیابی کو منافق برامحسوس کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن :نادم ہونے والے لوگ : 1۔ آدم کا بیٹا کہنے لگا کاش میں اس کوے کی طرح ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا تو وہ نادم ہونے والوں میں سے ہو گیا۔ (المائدۃ:31) 2۔ قریب ہے اللہ فتح عطا کر دے یا اپنی طرف سے کوئی حکم نازل فرما دے پس یہ اپنے آپ پر نادم ہوں۔ (المائدۃ:52) 3۔ اپنی غلطیوں پر نادم ہونے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ (المومنون :40) 4۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء :157) 5۔ اے ایمان والو ! فاسق کی خبر کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔ (الحجرات :6)