وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ
اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے (٤١) اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ (٤٢) اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 49 سے 50) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : یہود و نصاریٰ نبی اکرم (ﷺ) کو پریشان اور پھسلانے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی شرارت اور سازش کیا کرتے تھے ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ اللہ کے پیغمبر (ﷺ) سے کوئی ایسا کام کروائیں جس سے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں اور آپ کے دامن پاک پر کوئی ایسا دھبہ لگ جائے کہ لوگ آپ سے بد ظن ہوجائیں۔ اسی کے پیش نظر یہودیوں کے مذہبی رہنما آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر آپ اس کا فیصلہ ہماری مرضی کے مطابق کردیں تو نہ صرف ہم مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں بلکہ ہمارے ہزاروں متبعین مشرف بہ اسلام ہوجائیں گے۔ اس موقعہ پر یہ حکم نازل ہوا کہ اے نبی ! آپ ان کی خواہشات کا خیال رکھنے اور ان کی سازشوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں۔ آپ صرف اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کو نافذ فرمائیں اگر یہ لوگ اللہ کے حکم سے انحراف کریں گے تو یہ انحراف ان کے گناہوں کا سبب اور سزا ہوگی۔ جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق سمجھنی چاہیے۔ یقین جانیں کہ لوگوں کی اکثریت نافر مانوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے۔ نبی اور اس کے سچے متبعین کو ایسی اکثریت کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے کیا جو لوگ جاہلیت کا قانون پسند کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور قانون دنیا اور آخرت کے نتائج کے اعتبار سے ہر قانون سے بہتر ہے لیکن اسے وہی لوگ تسلیم کرتے ہیں جنھیں یقین و ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے جہالت سے مراد ہر وہ کام اور مسئلہ ہوتا ہے جو وحی الٰہی کے خلاف ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پائی جائے۔ مسائل :1۔ ہر فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہونا چاہیے اور کسی کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ 2۔ بعض لوگ کتاب اللہ سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت نافرمان ہوتی ہے۔ 4۔ گمراہ لوگ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے قانون سے بہتر کوئی قانون نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن :اکثریت کا حال : 1۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے لیکن لوگوں کی اکثریت شکر گزار نہیں ہوتی۔ (البقرۃ:243) 2۔ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے اکثریت اس حقیقت کو نہیں جانتی۔ (الاعراف :187) 3۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی۔ (ھود :17) 4۔ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ نافذ کرنے پر قادر ہے لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی۔ (یوسف :21) 5۔ لوگوں کی اکثریت شکر گزار نہیں ہوتی۔ (یوسف :38) 6۔ لوگوں کی اکثریت بے عقل ہوتی ہے۔ (المائدۃ:103) 7۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ (الرعد :1)