سورة المآئدہ - آیت 41

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے پیغمبر ! جو لوگ کفر میں بڑی تیزی دکھا رہے ہیں وہ تمہیں غم میں مبتلا نہ کریں (٣٢) یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (کھلے بندوں) یہودیت کا دین اختیار کرلیا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں کان لگا لگا کر سننے والے ہیں (٣٣) (اور تمہاری باتیں) ان لوگوں کی خاطت سنتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں آئے (٣٤) جو (اللہ کی کتاب کے) الفاظ کا موقع محل طے ہوجانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو اس کو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیا جائے تو بچ کر رہنا۔ اور جس شخص کو اللہ فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلے تو اسے اللہ سے بچانے کے لیے تمہارا کوئی زور ہرگز نہیں چل سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ( ان کی نافرمانی کی وجہ سے) اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ (٣٥) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کے لیے آخرت میں زبردست عذاب ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : نیاخطاب شروع ہوتا ہے۔ رسول کریم (ﷺ) کی شب و روز کی پر خلوص محنت کے باوجود منافق آپ کو تکلیف دینے، مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسلام کے خلاف ہر زہ سرائی کرنے میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ یہودیوں کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے جھوٹ سننے اور اسے آگے پھیلانے کا مستقل مشغلہ اختیار کر رکھا تھا۔ 1۔ یہودی اپنے علماء سے جھوٹے مسائل سنتے اور ان کو آگے پھیلاتے تھے۔ 2۔ یہودی جھوٹ سننا پسند کرتے اور جھوٹی باتیں لوگوں تک پہنچاتے تھے تاکہ لوگ نبی اکرم (ﷺ) اور اسلام سے دور رہیں۔ یہودیوں کی دوسری بدترین عادت یہ تھی اور ہے کہ یہ نبی (ﷺ) کے ارشادات کو توڑ مروڑ کر اور قرآن کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ اسلام کے بارے میں تشکیک کا شکار رہیں۔ اور لوگوں کو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر محمد (ﷺ) ہمارے عقائد کے مطابق مسائل بیان کریں تو انھیں قبول کرلو اگر ایسا نہ کریں تو ہرگز قبول نہ کرو۔ اس کا صاف مطلب تھا اور ہے کہ دین ان کی مرضی کے مطابق نازل ہونا چاہیے اس صورت حال پر نبی محترم (ﷺ) بتقا ضائے بشریت رنجیدہ خاطر ہوتے جس پر آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ اے پیارے رسول آپ کو لوگوں کی ہرزہ سرائی اور بد اعمالیوں پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں جسے اللہ اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا کر دے اسے آپ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے کہ ان کے دلوں کو نفاق اور گندگی سے کبھی پاک نہیں کرے گا، ان کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بڑا عذاب ہوگا۔ جن لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں زمینی کشمکش میں مبتلا کردیا ہے۔ اے رسول! ایسے لوگوں کی آپ رہنمائی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے قلوب و اذہان کو اس گندگی سے پاک نہیں کرنا چاہتے۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی انھیں طہارت قلبی کی توفیق نہیں دیتا۔ ایسے لوگوں کے لیے بالآخر دنیا میں ذلت و رسوائی ہے۔ اور آخرت میں انھیں عذاب الیم میں مبتلا کیا جائے گا۔ ” حضرت حفص بن عاصم (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے۔“ [ رواہ مسلم : فی المقدمۃ] (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ إِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِی إِلَی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتَّی یَکُونَ صِدِّیقًا، وَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ یَہْدِی إِلَی النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ، حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللَّہِ کَذَّابًا ) [ رواہ مسلم : باب قُبْحِ الْکَذِبِ وَحُسْنِ الصِّدْقِ وَفَضْلِہِ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک جھوٹ برائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور برائی آگ کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“ مسائل: 1۔ کفر کی طرف راغب ہونے والے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ 2۔ یہو دی جھوٹ گھڑتے اور بولتے ہیں۔ 3۔ یہودی اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جس کو آزمائش میں مبتلا کرے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ 5۔ جھوٹ گھڑنے والے اور کلام اللہ میں تحریف کرنے والوں کے دل پاک نہیں ہوتے۔ 6۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں ذلّت اور آخرت میں عظیم عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : دنیا اور آخرت میں ذلیل لوگ : 1۔ دنیا وآخرت میں ذلیل ہونے والے مجرم۔ (المائدۃ :41) 2۔ کفار کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ ( البقرۃ :85) 3۔ کفار کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں برا عذاب ہے۔ (البقرۃ:114) 4۔ کافروں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ (المائدۃ:41) 5۔ کفارکے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اللہ قیامت کو سخت عذاب چکھائے گا۔ (الحج :9) 6۔ اللہ کفار کو دنیا میں ذلت ورسوائی چکھاۓ گا اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے۔ (الزمر :26) 7۔ جو مسلمان ظاہرہ اور باطنی گناہ کرنا ترک نہ کرے اسے آخرت میں سزا ملے گی۔ (التحریم : 8۔ الانعام :120)