سورة المآئدہ - آیت 39

فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جو شخص اپنی ظالمانہ کارروائی سے توبہ کرلے، اور معاملات درست کرلے، تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا (٣١) بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : مجرموں کے لیے توبہ اور اصلاح کا دروازہ کھلا رکھ کر انہیں توبہ اور اصلاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ دنیا کے دسا تیر اور قوانین میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا کہ ایک مجرم کو سزا دینے کے بعد اس کی اصلاح کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اعزاز بھی صرف دین اسلام کو حاصل ہے کہ وہ مجرم کو سزا دینے کے بعد نہ صرف اسے اپنی اصلاح کا موقع دیتا ہے بلکہ وہ اسے اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ جو شخص بھی سچے دل اور اصلاح کے ارادے کے ساتھ توبہ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کو رحیم وکریم پائے گا۔ اللہ کے نبی (ﷺ) مجرم کو توبہ کی تلقین کیا کرتے تھے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍنِ الْخُدْرِیِّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ کَانَ فِی بَنِی إِسْرَاءِیلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ إِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتٰی رَاہِبًا فَسَأَلَہُ فَقَالَ لَہُ ہَلْ مِنْ تَوْبَۃٍ قَالَ لَا فَقَتَلَہُ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ اءْتِ قَرْیَۃَ کَذَا وَکَذَا فَأَدْرَکَہُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِہٖ نَحْوَہَا فَاخْتَصَمَتْ فیہِ مَلَاءِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلَاءِکَۃُ الْعَذَابِ فَأَوْحَی اللّٰہُ إِلٰی ہَذِہٖ أَنْ تَقَرَّبِی وَأَوْحَی اللّٰہُ إِلٰی ہَذِہٖ أَنْ تَبَاعَدِی وَقَال قیسُوا مَا بَیْنَہُمَا فَوُجِدَ إِلٰی ہٰذِہٖ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَہُ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ توبہ کے لیے استغفار کر رہا تھا وہ ایک راہب کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ راہب نے جواب دیا نہیں۔ اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر وہ مسئلہ پوچھنے گیا، اسے اس شخص نے ایک بستی کی طرف رہنمائی کی۔ راستے میں اس کو موت نے آلیا تو وہ اپنے سینے کے بل اس بستی کی طرف گرا۔ اس شخص کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ مرنے والے کے قریب ہوجائے اور چھوڑی ہوئی بستی کو اس سے دوری کا حکم دیا۔ پھر دونوں کے درمیان فاصلہ ناپنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ منزل مقصود کے بالشت بھر قریب پا یا گیا اس لیے اس کو معاف کردیا گیا۔“ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنْ النَّبِیِّ () قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ باللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیء النَّہَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بالنَّہَارِ لِیَتُوبَ مُسِیء اللَّیْلِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا ) [ رواہ مسلم : کتاب التوبہ، باب قبول التوبۃ من الذنوب] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دست رحمت پھیلاتا ہے تاکہ دن بھر کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو دست شفقت بڑھاتا ہے تاکہ رات بھر کا گنہگار توبہ کرلے، سورج کے مغرب سے نکلنے یعنی قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔“ (کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّآءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ] ” آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں۔“ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُغَرْغِرَ نَفْسُہٗ قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ )[ احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب أحادیث رجال من أصحاب النبی (ﷺ) ] ” جس نے موت کے آثار ظاہرہونے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ ( اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔“ تفسیر بالقرآن : توبہ کی شرائط : 1۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور صاف پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (البقرۃ:222) 2۔ توبہ اور اپنی اصلاح کرنے والے کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ: 159تا160) 3۔ جو گناہ کے بعد توبہ کرے اور نیک ہوجائے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ (المائدۃ:39) 4۔ برائی کرنے کے بعد توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ (الاعراف :153) 5۔ ایمان والو سچے دل سے توبہ کرلواللہ تبارک وتعالیٰ تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ (التحریم :8) 6۔ سچی اور صحیح توبہ اس کی ہے جو توبہ کے بعد نیک اعمال کرتا رہے اور گناہ سے بچے۔ (الفرقان :71) 7۔ توبہ کے بعد گناہوں سے باز آنے والے کی توبہ قبول ہوتی ہے جو اپنی موت تک گناہوں سے باز نہ آئے اور توبہ بھی کرتا رہے اس کی توبہ قبول نہیں۔ (النساء : 17، 18) 8۔ اگر کبیرہ گناہوں سے بچا جائے تو پھر چھوٹے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (النساء :31)