لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا
مسیح کو ہرگز اس بات میں عار نہیں کہ وہ خدا کا بندہ سمجھا جائے اور نہ خدا کے مقرب فرشتوں کو اس سے ننگ و عار ہے۔ جو کوئی خدا کی بندگی میں ننگ و عار سمجھے اور گھمنڈ کرے تو ( وہ گھمنڈ کرکے جائے گا کہاں؟) وہ وقت دور نہیں کہ خدا سب کو ( قیامت کے دن) اپنے حضور جمع کرے گا
فہم القرآن : (آیت 172 سے 173) ربط کلام : عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدائی کا مرتبہ دیا حالانکہ وہ اللہ کے بندے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ یعنی اس کا غلام اور فرمانبردار ہونے سے قطعاً کوئی انکار نہ تھا جو اپنے آپ کو اللہ کا بندہ ہونے سے انکار کرے گا اس کی سزادرد ناک عذاب ہے۔ عبد کا معنی ہے۔۔ انسان اور غلام (المنجد) قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ اور انداز میں واضح کیا ہے کہ جتنے پیغمبر (ﷺ) دنیا میں مبعوث کیے گئے وہ سارے کے سارے عبد اور بشر تھے خاص طور پر جن انبیاء ( علیہ السلام) کی عبدیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ان کی سوانح حیات کو قرآن مجید نے اتنا واضح انداز میں بیان کیا ہے کہ جس سے ان کے عبد ہونے میں ذرہ برابر بھی شبہ باقی نہیں رہتا۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کے بارے میں جب یہ نظریہ گھڑا کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں تو اس باطل نظریہ کی تردید کے لیے حضرت عزیر (علیہ السلام) کی زندگی کا اہم ترین واقعہ یوں بیان کیا کہ اس شخص کی مثال سامنے رکھیے کہ جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک فوت کیے رکھا پھر اسے اٹھا کر پوچھا کہ اے میرے پیغمبر (ﷺ) تم کتنی دیر یہاں ٹھہرے ہو؟ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو یہ خبر نہ تھی کہ وہ کتنی مدت تک مردہ پڑے رہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے جواب دیا کہ بارالہا ! میں ایک دن یا اس کا کچھ وقت یہاں ٹھہرا ہوں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں تم سو سال تک مردہ پڑے رہے ہو۔ اب اپنے کھانے پینے کو دیکھو کہ وہ جوں کا توں ترو تازہ ہے اور اس میں کوئی سڑا ندھ پیدا نہیں ہوئی۔ پھر اپنے گدھے کی طرف دیکھو کہ ہم تجھے کس طرح لوگوں کے لیے دلیل بناتے ہیں اپنے گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھیے پھر ان کے سامنے گدھے کی ہڈیاں جڑیں اور اس کے اوپر گوشت چڑھا اس پر کھال اور بال اگے جب یہ سب کچھ واضح اور ثابت ہوا توحضرت عزیر (علیہ السلام) پکار اٹھے کہ میں جان چکا ہوں کہ اللہ ذرے ذرے پر اقتدار اور اختیار رکھنے والا ہے۔ (البقرہ :259) معجزات کی بنا پر ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں عیسائیوں نے من گھڑت عقیدہ قائم کیا کہ وہ تین میں سے ایک ہیں یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں تو اس باطل نظریہ کی تردید کے لیے قرآن مجید میں آل عمران کے نام سے ایک مفصل سورت نازل کی گئی جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندانی پس منظر، ان کی نانی محترمہ کا اللہ تعالیٰ کے حضور نذر ماننا، بیٹے کی بجائے حضرت مریم کا پیدا ہونا، حضرت زکریا (علیہ السلام) کا مریم کی کفالت کرنا، مریم کی والدہ کا مریم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کرنا۔ اس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندانی پس منظر کیساتھ ان کی سوانح حیات کو پوری طرح کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح یحییٰ (علیہ السلام) کا خدا کا بیٹا ہونے کی نفی کرتے ہوئے ان ہی کی زبان سے وضاحت کروائی گئی کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ (مریم :30) اسی بنیاد پر یہاں وضاحت کی گئی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے یہاں یہ بات بھی واضح ہوجانی چاہیے اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان (ﷺ) کی امت میں بھی باطل عقائد کے لوگ ہوں گے جس کی بنا پر حضرت محمد (ﷺ) کے بارے میں بھی متعدد آیات میں روز روشن کی طرح یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ آپ اللہ کے رسول اس کے بندے اور بشر ہیں اس عقیدہ کا یہاں تک التزام کردیا گیا کہ آدمی اس وقت تک دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ کلمۂ شہادت میں نبی (ﷺ) کی عبدیت کا اقرار نہیں کرلیتا اور اس کی پنجگانہ نماز مکمل نہیں ہو سکتی جب تک تشہد میں آپ کی عبدیت کی شہادت نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ انبیاء ( علیہ السلام) کی عبدیت انسانیت کا شرف ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) شرف انسانیت کی شان اور ترجمان ہوا کرتے تھے۔ اس لیے ان کو عبد اور بشر ہونے میں ذرہ برابر بھی تأمل نہیں تھا۔ اس ضمن میں سند کی طرف توجہ کیے بغیر ہم تفسیرضیاء القرآن سے ایک حوالہ نقل کرتے ہیں۔ ” حضور رحمۃ للعالمین (ﷺ) معراج کی رات مقام قرب کی انتہا تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے پوچھا ” بما اشرفک یامحمد“۔ اے سراپا ستائش و خوبی ! میں آج تجھے کس اعزاز سے مشرف کروں تو حضور (ﷺ) نے عرض کی ” بنسبتی الیک بالعبودیۃ“ ” مجھے اپنا بندہ ہونے کا شرف عطا فرما“ شاید یہی حکمت ہے کہ جس سورۃ میں معراج کا ذکر ہے وہاں حضور کے متعلق عبدہ کا لفظ مذکو رہے۔“ اسی لیے اس فرمان کے آخر میں فرمایا کہ جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس حیثیت پر ایمان لائیں گے اور صالح کر دار اپنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ دینے کے ساتھ اپنی طرف سے مزید اجر سے نوازیں گے۔ اور جنھوں نے عقیدہ توحید اور اللہ کی الوہیت سے انکار کیا۔ ان کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ کوئی ان کی خیر خواہی اور مدد نہیں کرسکے گا۔ مسائل : 1۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے تھے اور بندہ ہونا اپنے لیے عار نہیں سمجھتے تھے۔ 2۔ اللہ کی بندگی کو عار نہیں سمجھنا چاہیے۔ 3۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بندگی کو عار نہیں سمجھتے۔ 4۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کو عار سمجھے گا اسے اذیت ناک سزا دی جائے گی۔ 5۔ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ و مقام اور ان کا اقرار کہ میں اللہ کا بندہ ہوں : 1۔ حضرت عیسیٰ کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم جیسی ہے۔ (آل عمران :59) 2۔ حضرت عیسیٰ کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔ (النساء :158) 3۔ عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے۔ (آل عمران :59) 4۔ عیسیٰ نے اپنی والدہ کی گود میں اپنی نبوت اور بندہ ہونے کا اعلان فرمایا۔ (مریم : 29، 30) 5۔ عیسیٰ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کرتے تھے (آل عمران :49) 6۔ عیسیٰ مٹی سے اڑنے والا پرندہ بناتے تھے۔ (آل عمران :49) 7۔ عیسیٰ لوگوں کے اندوختے کی خبر دیتے تھے۔ (آل عمران :49) 8۔ حضرت عیسیٰ کی حضرت جبریل امین خصوصی معاونت فرماتے تھے۔ (البقرۃ:253)