يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ الرسول (یعنی پیغمبر اسلام) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس سچائی کے ساتھ آگیا ہے (اور اس کی سچائی اب کسی کے جھٹلائے جھٹلائی نہیں جاسکتی) پس ایان لاؤ کہ تمہارے لیے (اسی میں بہتری ہے اور (دیکھو) اگر تم کفر کرو گے تو آسمان و زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (تمہاری شقاوت خود تمہارے ہی آگے آئے گی اور (یاد رکھو) اللہ (سب کچھ) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : منکرین نبوت کو ایک مرتبہ پھر نبی آخر الزماں (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے انکار کرنے والوں کو انتباہ کیا ہے کہ تمہارے کفر سے خدا کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہود کے بعد دعوت عام دی جا رہی ہے کہ اے لوگو! یہودیوں کی طرح بہانہ تراشی اور حیلہ سازی کرنے کی بجائے سرور دو عالم (ﷺ) پر ایمان لاؤ۔ جو تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ مبعوث کیے گئے ہیں۔ یہی تمھارے لیے بہتر راستہ ہے اگر تم ایمان لانے اور حق کا ساتھ دینے سے گریزاں ہو تو یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں پڑتا زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اور چپہ چپہ اس کے تابع فرمان ہے۔ صرف باغی انسان ہی پوری کائنات کے طرزعمل کے خلاف طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ ڈھیل انسان کو اس لیے نہیں دی گئی کہ انسان کے اعمال و خیالات اللہ کے علم سے باہر ہیں اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود اپنی حکمت و مشیّت کے تحت انسان کو ایک وقت مقرر تک چھوڑے ہوئے ہے جب اس کی گرفت اور عتاب کا وقت آئے گا تو باغی اور ظالم کو چھڑانے اور بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حق (اَلْحَقُّ) اللہ کے 99صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے۔ (مشکوٰۃ: باب اسماء اللہ ) ” حق“ سے مراد قرآن اور اللہ کا پیغام ہے آپ کی نبوت کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہصرف دعا کی بلکہ مکہ شہر کی نشاندہی بھی فرمائی کہ اس شہر اور اس قوم میں آخری نبی ہونا چاہیے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے آگے بڑھ کر آپ کا اسم گرامی لے کر بنی اسرائیل کو آپ کی نبوت کی بشارت سے نوازا۔ (عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِی طینَتِہٖ وَسَأُنَبّئُکُمْ بِتَأْوِیلِ ذَلِکَ دَعْوَۃِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ وَبِشَارَۃِ عیسَی قَوْمَہُ وَرُؤْیَا أُمِّی الَّتِی رَأَتْ أَنَّہُ خَرَجَ مِنْہَا نُورٌ أَضَاءَ تْ لَہُ قُصُور الشَّامِ وَکَذٰلِکَ تَرٰی أُمَّہَات النَّبِیِّینَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِمْ) [ رواہ احمد] ” حضرت عرباض بن ساریہ سلمی بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں قرآن مجید میں مجھے خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے جب حضرت آدم (علیہ السلام) ابھی مٹی اور روح کے درمیان تھے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں انھوں نے دیکھا کہ ان کے وجود سے ایک روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔ اور اسی طرح ہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کی مائیں دیکھا کرتی تھیں۔“ (یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْئًا)[ رواہ مسلم : باب تَحْرِیم الظُّلْمِ] ” اے میرے بندو اگر تمھارے پہلے، پچھلے جن و انس سارے کے سارے فاجر انسان کی طرح ہوجائیں میری بادشاہت میں کسی چیز کی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔“ مسائل : 1۔ نبی (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔ 2۔ کفر و شرک کرنے والے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ علم و حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : رسول محترم (ﷺ) کا مرتبہ و مقام : 1۔ آپ (ﷺ) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف :158) 2۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء :107) 3۔ آپ (ﷺ) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40) 4۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : 45۔46) 5۔ نبی کریم (ﷺ) کو تمام انسانوں کے لیے رؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبۃ :128) 6۔ آپ (ﷺ) کی بعثت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164)