رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کرنے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کسی نے نہیں دکھلائی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 165 سے 166) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کسی انوکھی نبوت کے ساتھ نہیں آئے ان سے پہلے بے شمار انبیاء آئے لہٰذا بڑے بڑے انبیاء کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد ان کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں اپنا خلیفہ نامزد فرمایا اور اسے عقل و فکر کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کم ازکم اتنی عقل و فکر ضرور عطا فرمائی ہے کہ وہ اچھے و برے اور نفع و نقصان میں تمیز کرسکے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی پہچان کے لیے دنیا میں بے شمار شواہد و قرائن پیدا فرمائے پھر جزوی تشریحات کو چھوڑ کر دین کے بنیادی ارکان کو ہمیشہ سے ایک رکھا۔ تاکہ جس دین کے بغیر گزارہ نہیں اسے سمجھنا اور اپنا ناانسان کے لیے آسان رہے۔ اس فطری، ماحولیاتی، اور آفاقی رہنمائی کے باوجود انسان پر یہ کرم کیا کہ پے درپے انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ایسی بے مثال شخصیات تھیں جو پیدائشی طور پر گفتار کے سچے، کردار کے پکے اور اس قدر خیر خواہ اور مخلص ہوا کرتے تھے کہ جن کو دیکھ کر پتھر بھی پکار اٹھے کہ یہ واقعی اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ پھر ہر نبی کو اس کے حالات کے مطابق ایسے ایسے معجزات عطا کے گئے کہ ان کے جانی دشمن بھی تنہائی میں ان کے سچے ہونے کا اعتراف کیا کرتے تھے۔ انبیاء اس قدر مخلصانہ اور بے پناہ جدوجہد کرتے اور اس کے بدلے ایک پائی بھی وصول کرنے کے روا دار نہیں ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے مشن کے لیے جان کی بازی لگا دی اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار اور انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کو مسترد کردیا۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہرتھے یہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو لوگوں کے لیے اختیاری رکھا ہے اور انبیاء (علیہ السلام) کو صرف بتلانے اور سمجھانے والا بنا کر بھیجا تھا۔ جن کی تبلیغ و تعلیم کا مقصد لوگوں کو اچھے برے اعمال اور ان کے انجام سے آگاہ کرنا ہے۔ تاکہ محشر کے دن خدا کے حضور مجرم پیش ہوں تو ان کے پاس یہ حجت نہ ہو کہ ہمیں یاد دلانے اور سمجھانے والا نہیں آیا تھا۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے رسول ! یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور لوگوں کے انکار سے دلبرداشتہ اور ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں اگر یہ لوگ ہٹ دھرمی اور دنیا پرستی کی وجہ سے آپ کی رسالت کا انکار اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے انحراف کرتے ہیں تو اس سے خدا کی خدائی اور آپ کی پیغمبر (ﷺ)انہ شان اور کام میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دنیا کا منصب اور عہدہ نہیں کہ جس کو لوگ مسترد کردیں گے تو اسے نامزد کرنے والا بالآخر واپس بلانے پر مجبور یا صاحب منصب خود بھاگ جائے گا۔ یہ تو نبوت کا مقام عالی ہے کہ ساری مخلوق بھی ٹھکرا دے تو نبی کی نبوت اور اس کے اجر و ثواب میں رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں آتی۔ اس لیے آپ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچاتے جائیں اسے معلوم ہے کہ کون اس کے پیغام کا حق ادا کرتا ہے اور کس کس نے اس کا انکار کرنا ہے زمین و آسمان کا مالک گواہی دیتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اسی نے اپنے علم کے مطابق آپ پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے لہٰذا اپنا کام جانفشانی اور پورے اخلاص کے ساتھ جاری رکھیں لوگ تائید نہیں کرتے تو نہ کریں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آپ کی نبوت، اخلاص اور کار نبوت کی ادائیگی پر گواہ ہیں یاد رکھیں کہ اللہ کی گواہی سے بڑھ کر کسی کی گواہی معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔ مسائل : 1۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد لوگوں تک اللہ کے پیغامات پہنچانا ہے۔ 2۔ رسول لوگوں کو جنت کی خوش خبری اور عذاب سے ڈرانے والے تھے۔ 3۔ رسول اتمام حجت کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے گواہی دیتے ہیں کہ جو کچھ نبی (ﷺ) پر نازل ہوا وہ حق ہے۔