وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور (پھر جب ایسا ہوا تھا کہ صحراسینا کی بے آب و گیاہ سرزمین میں دھوپ کی شدت اور غزا کے نہ ملنے سے تم ہلاک ہوجانے والے تھے تو) ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلادیا اور من اور سلوی کی غذا فراہم کردی (تم سے کہا گیا :) خدا نے تمہاری غذا کے لیے جو اچھی چیزیں مہیا کردی ہیں انہیں بفراغت کھاؤ اور کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرو (لیکن اس پر بھی تم اپنی بدعملیوں سے باز نہ آئے۔ غور کرو) تم نے (اپنی ناشکریوں سے) ہمارا کیا بگاڑا؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے
فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کی شکل میں ساتواں اور آٹھواں احسان۔ بنی اسرائیل کا آزادی کے بعدشکر کی بجائے شرک کرنا، جناب موسیٰ (علیہ السلام) پر عدم اعتماد کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کو خود دیکھنے کا گستاخانہ مطالبہ، وطن کی آزادی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ سے انکار جیسے پے در پے سنگین جرائم کرنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو صحرائے سینا میں تڑپ تڑپ کر بھوک سے مرنے دیا جاتا۔ لیکن اس کے باوجود رحیم و کریم رب نے انہیں پہلے سے زیادہ عمدہ و لذیذ کھانا‘ گھنے بادلوں کا سایہ، پینے کے لیے میٹھے اور صاف و شفاف چشموں کا پانی عنایت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ہم پر زیادتی نہیں کی وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ یعنی جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ اپنے جرائم کے بدلے خود ہی ذلیل وخوار ہوتے رہے۔ چنانچہ حکم دیا کہ بس میری عبادت کرو، امن سے رہو اور دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کرو۔ اس میں یہ حکمت پنہاں تھی کہ فرعون کی غلامی میں پلنے والی نسل ختم ہو اور نئی نسل کھلی فضا اور آزاد ماحول میں پروان چڑھے جو جسمانی لحاظ سے تنو مند و کڑیل جوان اور فکری طور پر آزادی کے متوالے، اعتقاد و کردار کے اعتبار سے انتہائی پختہ ہوں اور جو قابض قوم عمالقہ سے نبرد آزما ہو کر اپنا آبائی وطن ملک فلسطین آزاد کروانے کی ہمت اور جرأت رکھتے ہوں۔ صحرائے سینا کا حدود اربعہ : یہ مثلث نما جزیرہ ہے جو بحر الکاہل (بحیرہ روم) (شمال کی طرف) اور ریڈسی (جنوب کی طرف) کے درمیان مصر میں واقع ہے اور اس کا رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں سویز نہر مغرب کی طرف اور اسرائیل۔ مصر سرحد‘ شمال مشرق کی طرف ہیں۔ سینائی جزیرہ نما جنوب مغربی ایشیا میں واقعہ ہے۔ اسے مغربی ایشیا بھی کہتے ہیں یہ زیادہ درست جغرافیائی اصطلاح ہے جبکہ مصر کا باقی حصہ شمالی افریقہ میں واقعہ ہے جغرافیائی و سیاسی مقاصد کے لیے سینائی کو اکثر افریقہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سینائی تقریباً مکمل طور پر صحرا ہے اور تبا (Taba) میں سباہ ساحل (Sabah Coast) کے ساتھ ساتھ واقعہ ہے۔ (موجودہ اسرائیل قصبہ ایلٹ ( eilat) کے نزدیک) جہاں ایک ہوٹل اور رقص گاہ (Casino) ہے جب ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف حرکت کی جائے تو وہاں نیو ویبا (Nuweiba) داھاب (Dahab) اور شرم الشیخ (Sharmel Sheikh) و اقع ہیں سینائی العریش (el Arish) میں غزہ پٹی کے نزدیک شمالی ساحل پر بھی واقع ہے۔ جبل موسیٰ جسے جبل سینائی بھی کہتے ہیں۔ تورات میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس جگہ جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدائی احکام وصول کیے جنوبی سینائی جزیرہ نما میں واقع ہے۔ جس کے لیے دعویٰ ہے کہ یہ تورات کے سینائی پہاڑکی جگہ ہے۔ اس قصے کی تفصیلات بائبل کی کتاب‘ گنتی استثناء اور یشعو میں ملیں گی۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دشت فاران سے بنی اسرائیل کے بارہ سرداروں کو فلسطین کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آئیں۔ یہ لوگ چالیس دن دورہ کر کے وہاں سے واپس آئے اور انہوں نے قوم کے مجمع عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زور آور ہیں۔ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قد آور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔ یہ بیان سن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ ” اے کاش ہم مصر ہی میں مر جاتے یا کاش اس بیابان میں ہی مرتے۔ خداوند کیوں ہمیں اس ملک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصر واپس چلے جائیں؟ پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنا لیں اور مصر لوٹ چلیں۔ اس پر ان بارہ سرداروں میں سے جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے۔ دو سردار یوشع اور کالب اٹھے اور انہوں نے اس بزدلی پر قوم کو ملامت کی۔ کالب نے کہا ” چلو ہم یک دم جا کر اس ملک پر قبضہ کرلیں کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کریں۔“ پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا ” اگر خداوند ہم سے راضی رہے تو وہ ہمیں اس ملک میں پہنچائے گا فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو۔“ مگر قوم نے جواب یہ دیا کہ ” انہیں سنگسار کردو۔“ آخر کار اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے فیصلہ فرمایا کہ اچھا اب یوشع اور کالب کے سوا اس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اس سر زمین میں داخل نہ ہونے پائے گا۔ یہ قوم چالیس برس تک بے خانماں پھرتی رہے گی یہاں تک کہ جب ان میں سے بیس برس سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سب مرد مر جائیں گے اور نئی نسل جوان ہو کر اٹھے گی تب انہیں فلسطین فتح کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس دوران وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے۔ شرق اردن فتح کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد یوشع بن نون کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں۔ ” من“ کے بارے میں نبی {ﷺ}کا ارشاد : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ { ﷺ }الْعَجْوَۃُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَفِیہَا شِفَاءٌ مِّنَ السُّمِّ وَالْکَمْأَۃُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُہَا شِفَاءٌ لِلْعَیْنِ) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی الکمأۃ والعجوۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : عجوہ (کھجور کی ایک خاص قسم) جنت سے ہے اور اس میں زہر کے لیے شفا ہے اور کھنبی ” مَنْ“ سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا کا باعث ہے۔“ مسائل: 1۔ صحرائے سینا میں بنی اسرائیل پر بادل سایہ فگن رہتا تھا۔ 2۔ اللہ نے حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ 4۔ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ 5۔ من کا معنٰی ہے میٹھی چیز، سلو ٰی نمکین تھا۔ 6۔ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ظالم کون؟ 1-اللہ تعالی کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام: 21) 2-شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان: 13) 3- اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: 114) 4- اللہ تعالی پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر: 32) 5-اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : 57) 6- ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (الانعام: 21) 7- ظالم کی سزا جہنم ہوگی۔ (الانبیاء: 29) ظالم کی سزا : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (الحج :10) 2۔ اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ (آل عمران :140) 3۔ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوتی ہے۔ ( الاعراف :44) 4۔ ظالم کامیاب نہیں ہوں گے۔ (الانعام :21) 5۔ قیامت کو ظالموں کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ (المؤمن :52) 6- ظالم پر لعنت ہوتی ہے۔ (ھود: 18)