إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے برگشتہ ہیں اور چاہتے ہیں، اللہ میں اور اس کے رسولوں میں (تصدیق کے لحاظ سے) تفرقہ کریں اور کہتے ہیں ہم ان میں سے بعض کو مانتے ہیں، بعض کو نہیں مانتے اور اس طرح چاہتے ہیں ایمان اور کفر کے درمیان کوئی (تیسری) راہ اختیار کرلیں۔
فہم القرآن : (آیت 150 سے 151) ربط کلام : منافقوں کے بعد کفار کی ایک اور قسم اور ان کے کفر کا بیان۔ یہاں کفار کے ایسے کفر کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے کچھ لوگ مخلص مسلمانوں کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نبی آخر الزمان (ﷺ) یا کسی ایک نبی کا انکار کرتا ہے تو اسے اسلام سے خارج نہیں سمجھنا چاہیے ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ ایمان کا پہلا اور آخری تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا حکم تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جس ایمان کا انسان سے مطالبہ کیا ہے اس کے کئی اجزاء ہیں جسے شرعی اصطلاح میں ایمان مفصّل کہا جاتا ہے جب تک ایمان کے تمام اجزاء کو تسلیم نہیں کیا جاتا کسی آدمی کو ایمان دار کہلوانے کا حق نہیں پہنچتا۔ ایمان کے تین بنیادی اجزاء ہیں ایمان باللہ، ایمان بالرسالت اور ایمان با لآخرت۔ یہ مجمل ایمان ہے باقی اجزاء اس کی تفصیل ہیں یہاں ایمان کے دوسرے بنیادی جزء یعنی ایمان بالرسالت کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ جو شخص کچھ انبیاء کو مانتا ہے اور کچھ یا کسی ایک کا انکار کرتا ہے اس کا ایمان نہ صرف قابل قبول نہیں بلکہ وہ حقیقت میں پکا کافر ہے۔ اس لیے کہ تمام کے تمام انبیاء ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرنے والے تھے کسی ایک نبی کے منکر کو اس لیے بھی ایماندار تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ہر نبی اور اس کی تعلیمات رسالت مآب (ﷺ) کی تصدیق کرتی ہیں لیکن انکار کرنے والا محض ہٹ دھرمی اور تعصب کی بنیاد پر نبی آخر الزماں (ﷺ) یا کسی نبی کا انکار کرتا ہے یہ احمقانہ بات ہے اور اسلام ایسی حماقت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ اسی بنیاد پر یہودی اور عیسائی کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان حضرت محمد (ﷺ) کو نبی نہیں مانتے اور عیسائی رسالت مآب (ﷺ) کے منکر ہیں۔ کفر کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص قرآن کو مانتا ہے لیکن مستند حدیث کو یہ کہہ کر رد کرتا ہے کہ بس ہمیں قرآن ہی کافی ہے۔ ایسا شخص اللہ اوراُسکے رسول کے فرامین کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے۔ جو اللہ اور اسکے رسول کے درمیان تفریق ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے و الا شخص بھی دائرہ اسلام سے خارج تصور ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو صحیح طور پر سمجھنے اور ان پر کما حقہ عمل کرنے کے لیے نبی آخرالزمان (ﷺ) کو مبعوث کیا گیا ہے جس کی عملی تفسیر نمونہ حدیث ہے۔ جو رسول (ﷺ) کی تفسیر اور آپ کی سنت نہیں مانتا اسے کیونکر مسلمان تسلیم کیا جائے؟ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان میں تفریق کرتے ہیں وہ کافر ہیں۔ ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی رَافِعٍ (رض) وَغَیْرِہٖ رَفَعَہُ قَالَ لَا أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی أَرِیکَتِہٖ یَأْتِیہٖ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِہِ أَوْ نَہَیْتُ عَنْہُ فَیَقُولُ لاَ أَدْرِی مَا وَجَدْنَا فِی کِتَاب اللَّہِ اتَّبَعْنَاہُ) [ روا ھ الترمذی : کتاب العلم] ” حضرت ابورافع (رض) ان کے علاوہ اور صحابہ کرام (رض) بھی اس حدیث کو نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا میں تم سے کسی کو اس طرح نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرا کوئی فرمان آئے جس میں کسی چیز کا حکم یا کسی کام سے منع کیا گیا ہو تو وہ کہے میں اسے نہیں جانتا ہم تو فقط اس کی پیروی کریں گے جو اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔“ مسائل : 1۔ کسی ایک نبی کا انکار کرنا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات میں تفریق کرناکفر ہے۔ 3۔ کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : تفریق سے بچنا چاہیے : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے درمیان تفریق جائز نہیں۔ (النساء : 80۔150) 2۔ مومن انبیاء کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ (البقرۃ:285) 3۔ دین کو قائم کرو اور تفریق میں نہ پڑو۔ (الشوریٰ:13) 4۔ مومن پہلی کتب آسمانی پر ایمان لاتے ہیں۔ (البقرۃ:4) 5۔ بہت سے راستوں کی اتباع نہ کرو ورنہ تفریق میں پڑجاؤ گے۔ (الانعام :154) 6۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو پکڑ لو اور تفریق سے بچو۔ ( آل عمران :103) 7۔ تفریق اور اختلاف کرنے والوں کی طرح نہ ہوجاؤ۔ (آل عمران :105) 8۔ مومن سب انبیاء پر ایمان لاتے ہیں۔ (البقرۃ:285)