سورة النسآء - آیت 148

لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

خدا کو پسند نہیں کہ تم (کسی کی) برائی پکارتے پھرو۔ ہاں یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو (اور وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرے) اور (یاد رکھو) خدا سننے والا جاننے والا ہے (اس سے کسی کی کوئی بات پوشیدہ نہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 148 سے 149) ربط کلام : سابقہ آیات میں منافقوں کی دین اور مسلمانوں کے بارے میں ہرزہ سرائی اور نماز میں جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنے کی سزا بیان کرنے کے بعد تائب ہونے والوں کو قدر افزائی کا مژدہ سنایا۔ ہرزہ سرائی سے باز نہ آنے والوں کی ایذا رسانی کے مقابلے میں مومنوں کو ایک حدتک ان کے خلاف لب کشائی کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ بد اخلاقی کے مقابلے میں بھی بدخلقی کو پسند نہیں کرتا لیکن انسان کمزور اور کم حوصلہ واقع ہوا ہے اس لیے دشمن کی ایذا رسائی کے مقابلہ میں مظلوم اور دکھیارے مسلمانوں کو اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کو آشکار اکر سکیں تاکہ مظلوم کے ردّ عمل اور معاشرے کے اخلاقی دباؤ کی وجہ سے ظالم اپنے آپ میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ظلم سے باز آ جائے۔ دکھی انسان کو اس لیے بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ غم میں اس کا دم گھٹنے نہ پائے اور اظہار غم سے اس کا دکھ ہلکا اور جذبات ٹھنڈے ہوجائیں۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور ان کے شاگرد رشید حضرت قتادہ (رض) کا قول ہے کہ اس فرمان میں مظلوم کو ظالم کے خلاف بد دعا کرنے کا مکمل حق دیا گیا ہے اور یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بپتادوسروں کو سنائے اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکے۔ البتہ احتجاج کرتے ہوئے کسی مظلوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اخلاقی حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے ظلم کی حدود میں داخل ہوجائے کیونکہ قرآن کا طے شدہ اصول ہے۔ تاہم مظلوم کو بد زبانی کے مقابلہ میں لب کشائی کا حق دینے کے باوجود بردباری اور حوصلہ مندی کا سبق دیا ہے کہ تم اعلانیہ معاف کرو یا دل ہی دل میں اس تکلیف کی ٹیس کو برداشت کرو۔ اگر یہ نہیں ہو سکتاتو درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اس سے برائی بڑھنے کی بجائے دب جائے گی اور یہ اس لیے بھی بہتر ہے کہ جو لوگ منافقوں اور ان کی سازشوں کو نہیں جانتے وہ یہ پروپیگنڈہ بھی نہ کرسکیں گے کہ مسلمان آپس میں دست وگریبان ہیں جس سے مسلمانوں کی ساکھ اور وقار کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک موقعہ پر حضرت عمر (رض) نے عبداللہ بن ابی کی شرارتوں اور سازشوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے رسول کریم (ﷺ) سے اجازت طلب کی تھی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں عبداللہ بن ابی کا سر قلم کردوں لیکن آپ (ﷺ) نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ لوگ کہیں گے (اِنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، بَاب نَصْرِ الْأَخِ ظَالِمًا ...]” کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔“ معافی اور درگزر کا سبق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی چار صفات کا ذکر فرمایا ہے کہ تمہارا رب سب کچھ سننے اور جاننے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنے والاہے۔ اس لیے اللہ والوں کی یہ شان ہونی چاہیے کہ وہ ظلم کا بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنے کی عادت اپنائیں۔ سننے اور جاننے کی صفت بیان فرما کرظالم اور مظلوم کو آگاہ کیا ہے کہ ظالم کا ظلم اور مظلوم کی مظلومیت اللہ سے پوشیدہ نہیں اس میں ظالم کو انتباہ اور مظلوم کو ایک گنا تسلی دی گئی ہے۔ (قِیْلَ نَزَلَتِ الْآیَۃُ فِیْ أَبِیْ بَکَرٍ (رض)، فَإِنَّ رَجُلاً شَتَمَہٗ فَسَکَتَ مِرَاراً، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ فَقَام النَّبِیُّ ()، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ شَتَمَنِیْ وَأَنْتَ جَالِسٌ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَیْہِ قُمْتَ، قَالَ إِنَّ مَلِکًا کَانَ یُجِیْبُ عَنْکَ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ ذَہَبَ ذٰلِکَ الْمَلَکُ وَجَاء الشَّیْطَانْ، فَلَّمْ أَجْلِسُ عِنْدَ مُجِیْءِ الشَّیْطَانِ) (تفسیر الرازی) ” ایک موقعہ پر حضرت ابو بکر صدیق (رض) سے ایک شخص بد زبانی کر رہا تھا تنگ آکر جناب ابو بکر صدیق (رض) نے اس جیسی زبان استعمال کی تو نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ تم صبر اور درگزر کر رہے تھے تو تمہاری طرف سے ایک فرشتہ جواب دے رہاتھا جب تم نے اس کا جواب دیاتو اس کی جگہ اب شیطان آ گیا ہے۔“ (رازی) آپ (ﷺ) کا فرمان ہے : (لَیْسَ الشَّدِید بالصُّرَعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ) [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب الحذر] ” قوی اور طاقت ور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ بری بات کو پسند نہیں کرتا۔ 2۔ مظلوم کی زبان سے نکلی ہوئی بری بات پر کوئی مؤ ا خذہ نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کس بات کو پسند نہیں کرتا : 1۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :22) 2۔ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :36) 3۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :107) 4۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ:64) 5۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام :142) 6۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النحل :23) 7۔ اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ القصص :76) 8۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الروم :45) 9۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ :40)