إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا
جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایمان لائے، پھر کفر میں پڑگئے، پھر ایمان لائے، پھر کفر میں پڑگئے، اور پھر برابر کفر میں بڑھتے ہی گئے (تو فی الحقیقت ان کا ایمان لانا ایمان لانا، نہ تھا) اللہ انہیں بخشنے والا نہیں اور ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ (کامیابی کی) انہیں کوئی راہ دکھائے۔
فہم القرآن : ربط کلام : ایمان کے بعد کفر اور پھر کفر پر ڈٹ جانے والا ہدایت اور بخشش کا مستحق نہیں رہتا۔ اس آیت کا مفہوم مفسرین نے دو طرح اخذ کیا ہے۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ اس آیت کے مخاطب یہود ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے اور انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے اعتکاف کے بعد طور پہاڑ سے نیچے اترے تو ان کے سمجھانے پر یہودی دوبارہ ایمان لائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے تو انہوں نے ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور پھر کفر میں یہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ نبی آخرالزمان (ﷺ) کے بھی منکر ہوئے۔ دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا پھر ایمان لانا اور اس کے بعد ایسا کفر اختیار کرنا کہ اس میں سخت سے سخت ہوتے گئے۔ ان سے مراد منافق ہیں جو ہمیشہ کفرو نفاق کی کشمکش میں رہتے ہیں۔ اس آیت کا یہی مفہوم لینا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہاں مسلسل آٹھ آیات میں منافقوں کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے مفاد کی خاطر کبھی اسلام کی طرف آتے ہیں اور کبھی کفر میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ حال ہو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نہ معاف کرتا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے کیونکہ ہدایت کے لیے اخلاص اور استقامت نہایت ضروری ہے۔ مگر منافقین دنیا کے مفاد کی خاطر دونوں کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مرتد کو دنیا میں ہی قتل کردینے کا حکم ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب لایعذب بعذاب اللّٰہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جس نے اپنا دین تبدیل کرلیا اسے قتل کردو۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ مِنَّا رَجُلٌ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ قَدْ قَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ وَکَانَ یَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَانْطَلَقَ ھَارِبًا حَتّٰی لَحِقَ بِأَھْلِ الْکِتَابِ قَالَ فَرَفَعُوْہُ قَالُوْا ھٰذَا قَدْ کَانَ یَکْتُبُ لِمُحَمَّدٍ فَأُعْجِبُوْا بِہٖ فَمَالَبِثَ أَنْ قَصَمَ اللّٰہُ عُنُقَہٗ فِیْھِمْ فَحَفَرُوْا لَہٗ فَوَارَوْہُ فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْہُ عَلٰی وَجْھِھَا ثُمَّ عَادُوْا فَحَفَرُوْا لَہٗ فَوَارَوْہُ فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْہُ عَلٰی وَجْھِھَا ثُمَّ عَادُوْا فَحَفَرُوْا لَہٗ فَوَارَوْہُ فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْہُ عَلٰی وَجْھِھَا فَتَرَکُوْہُ مَنْبُوْذًا) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأحکامھم، باب ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے بنی نجار قبیلے کا ایک آدمی تھا جو سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران پڑھ چکا تھا اور رسول اللہ (ﷺ) کے پاس کتابت کیا کرتا تھا۔ بھاگ کر اہل کتاب کے ساتھ جاملا۔ راوی کہتے ہیں انہوں نے یہ کہتے ہوئے اسے مقام دیا کہ یہ محمد (ﷺ) کا کاتب تھا تو وہ اس وجہ سے متعجب ہوئے کچھ ہی عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے ان میں ہی اس کی گردن توڑ دی۔ انہوں نے گڑھا کھود کر اسے دفن کیا صبح زمین نے اسے باہر پھینکا ہوا تھا۔ انہوں نے پھر گڑھا کھود کر اسے دفن کیا زمین نے اسے پھر باہر پھینک دیا پھر انہوں نے گڑھا کھود کر دفنایا زمین نے پھر اسے باہر پھینک دیا پھر انہوں نے اسے باہر ہی رہنے دیا۔“ مسائل :1۔ بار بار کفر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نہ معاف کرتا ہے اور نہ ہی انہیں ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن :ہدایت اور بخشش سے محروم لوگ : 1۔ ظالموں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (البقرۃ:258) 2۔ مرتدین ہدایت و بخشش سے محروم ہوں گے۔ (النساء :137) 3۔ کافروں کو معافی اور ہدایت نہیں دی جاتی۔ (النساء :168) 4۔ فاسقوں کو ہدایت سے نہیں نوازا جاتا۔ (المائدۃ:108) 5۔ جھوٹوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (الزمر :3) 6۔ مشرک اللہ کی ہدایت سے محروم ہوتا ہے۔ (النساء :48)