وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا
اور اگر (میاں بی بی میں اصلاح کی کوئی صورت بن نہ پڑے اور ایک دوسرے سے) جدا ہوجائیں، تو اللہ اپنے (فضل کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجائے گا جو عجب نہیں، پہلے کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجاجائے گا جو عجب نہیں، پہلے سے بہتر ہو) اور اللہ بڑی وسعت والا اور اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اکٹھا رہنے کی کوئی شکل باقی نہ رہے تو جدائی کی صورت میں دونوں کو تسلی دی گئی ہے۔ گھر کی چار دیواری اور میاں بیوی کے تعلقات معاشرے کی اکائی اور بنیادی یونٹ کی حیثیت رکھتے ہیں یہ یونٹ جس قدر خوشحال اور اس کا ماحول جتناخوشگوار ہوگا۔ اتنا ہی معاشرہ مضبوط اور اچھے خطوط پر استوار ہوگا۔ اس یونٹ کو توڑ پھوڑ سے بچانے کے لیے قرآن مجید نے متعدد ہدایات جاری فرمائی ہیں۔ لیکن بسا اوقات معاملات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان پر قابو پانا کسی کے اختیار میں نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں مرد کو طلاق دینے اور عورت کو خلع لینے کا اختیار دیا ہے۔ یہ انقطاع طلاق کی صورت میں ہو یا خلع کی شکل میں بہتر سے بہتر صورت میں وقوع پذیر ہونا چاہیے۔ یہاں تک فرمایا کہ میاں بیوی کو آپس میں علیحدگی اختیار کرتے وقت سابقہ تعلقات اور محبت کو نہیں بھولنا چاہیے۔[ البقرۃ:237] علیحدگی کی صورت میں فریقین کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ اگر تم نے آپس میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے تو گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے اپنے مقام پر اپنی رحمت سے نوازے گا اور ایک دوسرے سے بے نیاز کر دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ وسعت و کشادگی کا مالک ہے۔ اگر اس نے تمہیں ناگزیر حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہونے کی اجازت عنایت فرمائی ہے تو اس کی حکمت یہ ہے کہ مزید لڑائی جھگڑے سے بچاؤ معاشرے میں تمہاری عزت، خاندان میں بھرم اور اولاد کے مستقبل پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب نہ ہونے پائیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول! میں ثابت بن قیس (رض) کے اخلاق اور دین پر کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کیا تو اس کا باغ اس کو واپس کرے گی ؟ اس نے کہا ہاں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ثابت بن قیس کو فرمایا باغ کو قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ ] مسائل :1۔ ناگزیر صورت حال میں میاں‘ بیوی رشتہ توڑ سکتے ہیں۔ 2۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق ہونے کی صورت میں ہر کسی کا اللہ کفیل ہے۔