سورة النسآء - آیت 123

لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو ! نجات و سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر (موقوف) ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ (وہ تو ایمان و عمل پر موقوف ہے) جو کوئی برائی کرے گا (خواہ کوئی ہو) ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے، اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے نہ مددگار

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جنت محض دعووں‘ نعروں اور کسی فرقہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ جو برائی اور شرک سے بچے گا وہی جنت کا مستحق ہوگا۔ بصورت دیگر برا شخص جنت اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم رہے گا۔ قرآن مجید ایک بار پھر اپنے اسلوب بیان کا اعادہ فرماتے ہوئے دو قسم کے اعمال اور ان کے انجام کا بیک مقام موازنہ کرتا ہے تاکہ قرآن کا قاری تجزیہ کرے کہ اسے کس کردار کا انتخاب اور آخرت کی کونسی منزل کے لیے کوشش کرنی چاہیے؟ یہ حقیقت بار بار واضح کی گئی ہے کہ کسی شخص کی نجات نعروں اور دعووں کی بنیاد پر نہیں ہوگی بلکہ نجات سچے ایمان اور صالح عمل پر ہوگی۔ یہاں ایک مرتبہ پھر اہل کتاب کے دعوے کی تردید کی جارہی ہے کہ نجات کا دارومدار کسی خاندانی نسبت یا محض دعوئ محبت پر نہیں بلکہ اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور شرک سے بچنا لازم ہے۔ جس شخص نے شرک کا ارتکاب کیا اور برے اعمال میں مبتلا رہا وہ قیامت کے دن اللہ کے سوا اپنے لیے کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں پائے گا۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ ہونے کے باوجود اپنے باپ کو جہنم سے نہیں بچا سکیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآ أَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآئِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) روز قیامت اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو تو وہ جواباً کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے کہ ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو ہے۔ جسے اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد ان کو توحید کی دعوت سے روکا کرتے تھے لیکن آپ (ﷺ) کے چچا ابو طالب آپ کے بہت زیادہ حمایتی اور ہمدرد تھے ان کی ہمدردی کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب قریش وفد لے کر ان کی خدمت میں پہنچے کہ اپنے بھتیجے کو روک لو ورنہ کوئی فتنہ کھڑا ہوگا۔ جناب ابوطالب نے نبی اکرم (ﷺ) کو کہا کچھ نرمی اختیار کیجئے آپ نے جواب دیا چچا سورج میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند بائیں ہاتھ پر رکھ دیا جائے میں تب بھی دعوت توحید سے باز نہیں آؤں گا تب ابوطالب نے کہا بیٹا جاؤ جو جی چاہے کرو۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ () وَذُکِرَ عِنْدَہٗ عَمُّہٗ أَبُوْطَالِبٍ فَقَالَ لَعَلَّہٗ تَنْفَعُہٗ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُجْعَلُ فِیْ ضَحْضَاحٍ مِّنَ النَّارِ یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ یَغْلِیْ مِنْہُ أُمُّ دِمَاغِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا آپ نے فرمایا شاید قیامت کے دن میری سفارش اسے فائدہ دے اور اسے جہنم کی اوپر والی سطح میں رکھاجائے جو اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہو اس سے اس کا دماغ کھول اٹھے گا۔“ ﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَۃَ نُوحٍ وَّامْرَاَۃَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ﴾ [ التحریم :10] ” اللہ تعالیٰ کافروں کے لیے نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کو بطور مثال بیان کرتا ہے وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان دونوں کے کچھ کام نہ آسکے اور دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔“ مسائل: 1۔ جنت صرف دعووں اور آرزؤوں سے نہیں مل سکتی۔ تفسیر بالقرآن: آرزؤوں اور تمناؤں کی حیثیت : 1۔ بلندوبانگ دعوے کام نہ آئیں گے۔ (البقرۃ:62) 2۔ اللہ تعالیٰ سچوں اور جھوٹوں کو پرکھتے ہیں۔ (العنکبوت :3) 3۔ یہود و نصاری کے جنتی ہونے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ (البقرۃ:111)