إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ
بلاشبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم راہنمائی کریں
فہم القرآن: (آیت 12 سے 16) ربط کلام : بخل سے بچانا اور الحسنٰی کی راہنمائی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تاہم اس نے نیکی اور برائی کی راہ دکھلا کر لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی کرتے ہیں یا برائی کی طرف جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر ہدایت اور گمراہی، نیکی اور برائی کی نشاندہی کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے کہ ہمارا کام نیکی اور ربرائی کی نشاندہی کرنا ہے۔ اب انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ ان میں سے کس کو اختیار کرتا ہے اگر وہ نیکی اختیار کرے گا تو ہم اس کے لیے نیکی کرنا آسان کردیں گے اگر وہ برائی پسند کرتا ہے تو ہم اسے کھلا چھوڑ دیں گے، ہمارا کام ہدایت اور گمراہی کو واضح کرنا ہے۔ ہدایت اور گمراہی واضح ہونے کے بعد لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے ” رب“ کے حکم کو مانیں اور یقین رکھیں کہ ہم ہی آخرت اور دنیا کے مالک ہیں۔ بُرائی کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ ہے، ہم نے تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ سے آگاہ کردیا ہے۔ اس میں وہی جائے گا جو انتہائی بدبخت ہوگا جو سچائی کو جھٹلانے والا اور اس سے منہ پھیرنے والا ہے۔ جہنم میں ہر وہ شخص جائے گا جس نے کفر و شرک کیا اور وہ شخص بھی جہنم میں پھینکا جائے گا جو ایمان لانے کے باوجود بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا ان گناہوں کی نشاندہی قرآن مجید اور حدیث پاک میں کردی گئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ جس نے کفر و شرک کیا وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں جلتا رہے گا اور جس نے توحید و سنت کا اقرار کرنے کے باوجود کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا اور توبہ کے بغیر چل بسا وہ اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ﴿اِنَّہَا تَرْمِی بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ﴾ (المرسلات :32) ” وہ آگ کے بڑے بڑے محلات کی مانند انگارے پھینکے گی۔“ ﴿بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْئَتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْ﴾ (البقرۃ: 81، 82) ” کیوں نہیں جس نے برے کام کیے اور اس کے برے کاموں نے اسے گھیر لیا پس یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے وہ جنتی ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنَّہُ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) (رواہ مسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (ﷺ) ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جس شخص تک میرا پیغام پہنچ جائے اور پھر وہ اسی حالت میں مرجائے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ الْکَبَائِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ) (رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نیکی اور برائی سے آگاہ کرنا اپنے ذمہ لیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی دنیا اور آخرت کا حقیقی مالک ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جہنم کی آگ سے آگاہ فرمادیا ہے۔ 4۔ جہنم میں وہی شخص جائے گا جو حقیقت کو جھٹلانے والا اور پرلے درجے کا بدبخت ہے۔ تفسیر بالقرآن : جہنم کی آگ کا ایک منظر : 1۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے محلات کے برابر ہوں گے۔ ( المرسلٰت :32) 2۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ:24) 3۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبہ :81) 4۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان :12) 5۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق :30) 6۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم :6) 7۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی گرج دار آواز سنیں گے۔ (الملک :7)