يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ
اے نفس مطمئنہ
فہم القرآن: (آیت 27 سے 30) ربط کلام : مجرموں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اجر اور مقام۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔ 1۔ نفس مطمئنہّ: ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا۔ (الفجر :27) 2۔ نفس لوّامہ : گناہ پر ملامت کرنے والا (القیامہ :2) 3۔ نفس امّارہ : گناہ پر ابھارنے والا (یوسف :53) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (1) نفسِ امّارہ اور نفس لوّامہ۔ ان کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوّامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے اور اگر نفس امّارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ قیامت کے دن ایک طرف مجرموں کو جکڑا جارہا ہوگا اور دوسری طرف ہر نیک کے لیے یہ اعلان ہوگا کہ اے میرے نیک بندے ! اپنے رب کے حضور راضی خوشی حاضرہوجا اور میرے بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہوجا۔ ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے اور اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، اور نہ غم کرو، بلکہ اس جنت کے بارے میں خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی ساتھی ہوں گے، وہاں جو چاہو گے تمہیں ملے گا اور جس چیز کی تمنا کرو گے اسے پاؤ گے اس ” رب“ کی طرف سے یہ مہمان نوازی ہے جو غفور ورحیم ہے۔“ (حمٓ السجدۃ: 30تا32) ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) کے ساتھ ہم انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (ﷺ) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے کسی لاش کی بدبو پھوٹتی ہے۔ فرشتے اس کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں وہ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون ہے۔ ملائکہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے۔ (الاعراف :40) “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندےاچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں گی۔“ (الحج :31) اس کے بعد اس کی روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ ذلیل کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو اتنی ڈراؤنی شکل والا کون ہے جو اتنی بری بات کہہ رہا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں مردہ کہے گا اے میرے رب قیامت کبھی قائم نہ کرنا۔“ (مسند احمد : مسند البراء بن عازب، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) مسائل: 1۔ رب کریم قیامت کے دن نیک لوگوں کو اپنے حضور بلائے گا اور وہ اپنے رب کے پاس راضی خوشی ہوں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو فرمائے گا کہ میرے بندوں میں شامل ہوجاؤ اور میرے جنت میں داخل ہوجاؤ۔