فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ
انسان کا حال تو یہ ہے کہ جب اسکا پروردگار اس کے ایمان کو اس طرح آزماتا ہے کہ اسے دنیا میں عزت اور نعمت عطا فرماتا ہے تو وہ فورا خوش ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا پروردگار میرا اعزاز واکرام کرتا ہے
فہم القرآن: (آیت 15 سے 20) ربط کلام : عاد، ثمود اور فرعون ہی نہیں ” رب ذوالجلال“ جب چاہے کسی باغی انسان کو پکڑ لے اور اسے آزمائش میں مبتلا کردے کیونکہ ہر وقت انسان اپنے رب کی نگرانی میں ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اسے اس کا رب مال اور تکریم عطا کرتا ہے تو وہ سوچتا اور کہتا ہے کہ مجھے میرے رب نے عزت عطا فرمائی ہے ا ورجب اس کا رب اسے رزق کی تنگی کے ساتھ آزماتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا ہے حالانکہ اکثر مال داروں کی حالت یہ ہے کہ وہ یتیم کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے اور مسکینوں کو نہ کھانا کھلاتے ہیں اور نہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں بلکہ یتیموں اور مسکینوں کا مال ہڑپ کرجاتے ہیں اور مال کے ساتھ بے حد محبت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ اگر وہ یتیموں، مسکینوں اور فی سبیل اللہ کے کاموں پر خرچ کرتا ہے تو اس کی طبیعت میں کشادگی اور راحت پیدا ہوتی ہے اگر وہ غریبوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اس کے دل میں بخل بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس بنا پر مال کے بارے میں اس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسے شخص کا ضمیر بن جاتا ہے کہ اگر اسے مال اور تکریم حاصل ہو تو وہ اپنے رب پر خوش ہوتا ہے اور اگر اسے مال کی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مال اور جاہ وحشمت نیکی اور حقیقی عزت کا معیار نہیں۔ اس کے نزدیک یہ انسان کی آزمائش کا ذریعہ اور طریقہ ہے کہ وہ کسی کو مال اور منصب دے کر آزماتا ہے اور کسی سے چھین کر آزمائش کرتا ہے۔ لیکن دنیا دار شخص ان چیزوں کو اپنے رب کی رضا کا سر ٹیفکیٹ سمجھتا ہے حالانکہ یہ چیزیں نیک لوگوں کے مقابلے میں دنیا داروں کو زیادہ میسر ہوتی ہیں۔ مومن کی عظمت : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) فَأُتِیَ بِجُمَّارٍ فَقَالَ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃً مَثَلُہَا کَمَثَلِ الْمُسْلِمِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ ہِیَ النَّخْلَۃُ فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَکَتُّ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) ہِیَ النَّخْلَۃُ) (رواہ البخاری : باب الفہم فی العلم) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم (ﷺ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس کھجوریں لائیں گئیں آپ (ﷺ) نے سوال کیا کہ بتلاؤ درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جو مومن کی مانند ہے؟ میں نے ارادہ کیا کہ بتلاؤں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں قوم میں سے سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں خاموش رہا تو آپ (ﷺ) نے خود جواب دے دیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔“ سخی اور بخیل میں فرق : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَیْدِیْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) (رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا : بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے، بخیل صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ پر سخت ہوجاتی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اُطْعِمُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہُ اَمَاعَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہُ لَوَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَسْقِیْکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ سَقَیْتَہُ وَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِی) (رواہ مسلم : باب فضل عیادۃ المریض) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا تو تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا میرے پروردگار میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کرتا؟ کیونکہ آپ ہی تو رب العالمین ہے اس پر اللہ فرمائے گا۔ تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے آتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھا نامانگا لیکن تو نے مجھے نہ کھلایا؟ بندہ جواب دے گا، اے میرے رب! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو جہانوں کو رزق دینے والا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھے معلوم نہیں میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اس کو کھلانے سے انکار کردیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔ آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایاوہ عرض کرے گا، اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو تو جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو نے اس کو پانی پلایا ہوتا تو آج میرے پاس تو اپنے لیے مشروبات پاتا۔“ (عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ (ﷺ) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَائِعٌ إِلَی جَنْبِہِ) (رواہ البیھقی : باب صاحِبِ الْمَالِ لاَ یَمْنَعُ الْمُضْطَرَّ فَضْلاً إِنْ کَانَ عِنْدَہُ) ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمت دے کر آزماتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ غربت کے ذریعے بھی انسان کی آزمائش کرتا ہے۔ 3۔ دنیادارکو نعمت ملتی ہے تورب کی تعریف کرتا ہے اور جب نعمت چھن جاتی ہے تو اپنے رب کا شکوہ کرتا ہے۔ 4۔ مال سے محبت کرنے والے لوگ یتیموں اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے۔ 5۔ مال سے محبت رکھنے والے لوگ یتیموں اور مسکینوں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ 6۔ دنیادارلوگوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ حد سے زیادہ مال سے محبت رکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : یتیموں اور مسکینوں کے حقوق : 1۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ :220) 2۔ یتیموں کی اصلاح میں بہتری ہے۔ (البقرۃ :220) 3۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت ہے۔ (الضحیٰ :9) 4۔ یتیم کا مال کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ (النساء :2) 5۔ والدین، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ (النساء :36)