سورة النسآء - آیت 104

وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) دشمنوں کا پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو۔ اگر تمہیں (جنگ میں) دکھ پہنچتا ہے، تو جس طرح تم دکھی ہوتے ہو، وہ بھی (تمہارے ہاتھوں) دکھی ہوتے ہیں، اور (تمہیں ان پر یہ فوقیت ہے کہ) اللہ سے (کامیابی اور اجر کی) ایسی ایسی امیدیوں رکھتے ہو، جو انہیں میسر نہیں۔ (کیونکہ تم اللہ کی راہ میں حق و انصاف کے لیے لڑ رہے ہو۔ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے لیے ظلم و فساد کی راہ میں لڑ رہے ہیں) اور (یاد رکھو) الہ (تمام حال) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ جہاد کے مضمون سے پیوستہ۔ جہاد کے مسائل اور احکامات کا اس موقعہ پر اختتام کرنے سے پہلے حسب معمول تربیت اور نصیحت کے پہلو کو نمایاں فرمایا۔ کیونکہ سفر میں نماز پڑھنا خاص کر اوّل وقت پر ادا کرنا عام حالات کی نسبت مشکل ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا نماز کی ادائیگی اور اس کے اوقات کی پابندی کا ذکر فرمانے کے بعد جہادی خطاب کے آخر میں مجاہدین کو تسلی اور امید دلائی گئی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہیں جہاد کے راستے میں مشکلات پہنچیں۔ تم زخمی ہوئے ہو تو وہ بھی زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن یاد رکھو تمہارے دشمن اس سے دگنی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ اگر بدر و احد کو ملا کر دیکھا جائے تو وہ تم سے زیادہ قتل اور زخمی ہوئے ہیں۔ اگر وہ تمہارا تعاقب کرنے میں سست اور بزدل نہیں ہوئے تو تمہیں بھی سستی اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا وعدہ کیا ہے لہٰذا جس رحمت کی تم امید رکھتے ہو وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو مجاہد کو کثرت و قلت اور بے سرو سامانی کی پرواہ کیے بغیر کفار کے مقابلہ میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اسی کی بدولت مسلمان کفار پر غالب آتے رہے ہیں۔ جس کی تاریخ میں سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں۔ آج بھی مسلمان اسی جذبہ کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِیِّ () یَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا قَالَ فِی الْجَنَّۃِ فَأَلقٰی تَمَرَاتٍ فِیْ یَدِہٖ ثُمَّ قَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے غزوۂ احد کے دن نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا اگر میں شہید ہوجاؤں تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ نے فرمایا : جنت میں اس کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں اس نے وہ پھینک دیں پھر لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔“ مسائل : 1۔ زخمی ہونے کے باوجود مجاہدین کو حالت جنگ میں ہمّت نہیں ہارنا چاہیے۔ 2۔ مجاہد اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار ہے جبکہ کافر کو کوئی امید نہیں ہوتی۔