سورة البروج - آیت 1

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قسم ہے برجوں والے آسمان کی (١)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 9) ربط سورت : سورۃ الانشقاق کے آخر میں دو کردار اور ان کا الگ الگ انجام بیان ہوا۔ اسی بات کو البروج میں تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ ذکر فرما کر یہ واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں پر بڑا مہربان ہے، فرعون اور ثمود جیسا کردار رکھنے والوں کے لیے بڑا سخت ہے۔ فلکیات کے ماہرین نے آسمان دنیا کے بارہ برج متعین کر رکھے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد یہ برج نہیں ہیں۔ کچھ اہل علم نے قرآنی بروج سے مراد پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش ہے کہ بروج سے مراد آسمان کے دروازوں میں ڈیوٹی دینے والے ملائکہ ہو، جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب ثاقب کی صورت میں اسلحہ دے رکھا ہے جن سے وہ شیاطین کو مارتے اور بھگاتے ہیں۔ اکثر علماء نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں۔ جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ بنایا گیا ہے۔ تاہم سرور دوعالم (ﷺ) سے ہمیں بروج کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ملتی البتہ آپ (ﷺ) نے آسمان کی حفاظت اور شیاطین کے تعاقب کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ () قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَئِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ﴾) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں سے آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھنچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ملائکہ کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں‘ آپ کے پروردگار نے کیا ارشاد فرمایا؟ اوپر والے ملائکہ اللہ کا ارشاد کا ذکر کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد جو بلند اور بڑا ہے۔“ اَلْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ: قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر مشتمل ہوگا اور اس میں لوگوں کو کئی مراحل سے گزرنا پڑے گا، قرآن مجید نے انہیں مراحل کے حوالے سے قیامت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں قیامت کے دن کو الیوم الموعود کہا گیا ہے جس کا معنٰی ہے وعدے کا دن۔ یعنی وہ دن جس کے قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ شَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ: حاضر ہونے والے اور حاضر کیے جانے والے۔ مفسرین نے ان الفاظ کے دو مفہوم بیان فرمائے ہیں۔ 1۔ قیامت کے دن انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کا حاضر کیا جانا۔ 2۔ حاضر ہونے والوں سے مرادوہ ظالم ہیں جنہوں نے مومنوں کو آگ کی خندقوں میں ڈالا، حاضر کیے جانے والوں سے مراد وہ مظلوم ایماندار ہیں جنہیں آگ میں جلایا گیا جن کا ذکر اگلی آیات میں آرہا ہے۔ ان کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ ” اللہ“ پر ایمان لائے جو ہر اعتبار سے غالب اور قابل تعریف ہے۔ اسی کے لیے زمین و آسمانوں کی بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تین صفات کا ذکر کیا ہے۔ غالب کی صفت لاکر یہ ثابت کیا ہے کہ مومنوں پر ظلم ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ یہ ظلم کرنے والے اللہ تعالیٰ سے زیادہ طاقتور تھے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور غالب رہنے والاہے لیکن اس نے ایک طرف موحّدوں کا امتحان لیا اور دوسری طرف ظالموں کو ظلم کے لیے کھلا چھوڑ دیا تاکہ ایمانداروں کی استقامت ہمیشہ کے لیے مومنوں کے لیے مثال بن جائے اور ظالموں کو اذّیت ناک سزادی جائے۔ شہید کا لفظ بول کر یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں کے حال کو پوری طرح دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ ہر بات کو جانتا ہے اور ہر چیز پر نگران ہے۔ الحمید کی صفت لاکر یہ اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے اس قدر قابل تعریف ہے کہ اس کے لیے ہر چیز قربان کر دینی چاہیے اور جو اس کے لیے قربانی دے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی تعریف کے قابل بنادے گا کیونکہ زمین و آسمانوں کے تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں وہی اپنے بندوں کو جزا دینے والا اور مجرموں کو سزا دینے والاہے۔ اصحاب الاخدود کا علاقہ سعودی مملکت میں نجران سے تقریباً آٹھ دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ نجران سعودی عرب کے جنوبی صوبہ کا ہیڈ کو ارٹر ہے اور یمن کی سرحد پر واقع ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی توحید پر مرنے والوں کا مقام ہے کہ اس نے تین قسمیں کھا کر اصحاب الاخدود کی تاریخ بیان کی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر چیز پر نگران ہے : 1۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس :61) 2۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس :79) 3۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء :17) 4۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء :32) 5۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء :39) 6۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان :34) 7۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ:32) 8۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود :5)