فَلَا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ
پس شفق کی قسم
فہم القرآن: (آیت 16 سے 25) ربط کلام : کوئی آخرت کا اقرار کرے یا انکار کرے اسے ہر صورت رب ذوالجلال کے حضور پیش ہونا ہے ہر انسان ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہو کر بالآخر اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوگا۔ خالقِ کائنات نے اس مقام پر تین قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مغرب کی سرخی کی قسم، رات کی اور اس چیز کی جو وہ سمیٹ لیتی ہے اور چاند کی قسم! جب وہ ماہ کامل بن جاتا ہے۔ اے لوگو! تم ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے جارہے ہو، اور تمہارا رب تمہیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے اس کے باوجود تم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرنے کی بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، ان کے انکار اور تکذیب کرنے کی وجہ سے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے تین قسمیں اٹھا کر یہ بات سمجھائی ہے کہ جس طرح دن کی روشنی پر رات کی تاریکی چھا جاتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور رات کے اندھیرے پر ماہ کامل کی روشنی غالب آجاتی ہے اسی طرح ہی دنیا کی زندگی کے بعد موت کا اندھیرا ہے اور موت کے اندھیرے کے بعد قیامت کا دن طلوع ہوگا۔ یہی انسان کی زندگی کا حال ہے کہ ہر انسان کی ابتدا ایک نطفے سے ہوتی ہے پھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ ایک بچے کی شکل میں جنم لیتا ہے۔ اس طرح اس کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اس کے بعد اس کا بچپن پھر جوانی، پھر بڑھاپا، پھر اس کو موت آجاتی ہے۔ ان مراحل میں کوئی ایک مرحلہ ایسا نہیں جس کا کوئی شخص انکار کرتاہو یعنی انسان کا عدم سے وجود میں آنا پچپن سے جوانی، جوانی کا بڑھاپے میں تبدیل ہونا ہے اور اس کے بعد موت اور موت کے بعد قیامت میں زندہ ہونا اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے، یقینی امر ہے لیکن جب منکرین کے سامنے قیامت کا ذکر ہوتا ہے تو اس پر ایمان لانے کی بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ انہیں قرآن مجید کے فرمان کے سامنے جھک جانا چاہیے لیکن پھر بھی قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے چھپا لیں گے ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ظاہر اور باطن کو جانتا ہے نہ صرف اسے جانتا ہے بلکہ اسے دیکھ بھی رہا ہوتا ہے۔ جو لوگ حقائق کو جھٹلاتے ہیں انہیں اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری دینی چاہیے۔ اس اذّیت ناک عذاب سے صرف وہی لوگ بچ پائیں گے جو اپنے رب کے حکم کے مطابق ایمان لائے اور اس کے بتلائے ہوئے صالح اعمال کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ مسائل: 1۔ انسان چاہے یا نہ چاہے وہ ہر صورت ایک حالت سے دوسری حالت میں داخل ہوتا ہے۔ 2۔ قرآن مجید پر ایمان نہ لانے والے لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں۔ 3۔ لوگ جو کچھ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ 4۔ قرآن مجید اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے لیے اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری ہے۔ 5۔ حقیقی ایمان رکھنے والے اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : (الحجرات :16) (الحدید :4) (المجادلہ :7) (التغابن :4) (الانعام :59)