سورة النسآء - آیت 90

إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مگر ہاں جو لوگ (دشمنوں سے الگ ہو کر) کسی ایسی قوم سے جا ملیں کہ تم میں اور اس میں عہد و پیمان ہوچکا ہے، یا ایسے لوگ ہوں کہ لڑائی سے دل برداشتہ ہو کر تمہارے پاس چلے آئیں۔ نہ تم سے لڑیں نہ (تمہاری طرف سے) اپنی قوم کے ساتھ لڑیں (تو ایسے لوگ اس حکم میں داخل نہیں۔ ان کے خلاف تمہاری ہاتھ نہ اٹھے) اگر خدا چاہتا تو ان لوگوں کو بھی مسلط کردیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے۔ پس اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوگئے اور جنگ نہیں کرتے نیز صلح کا پیغام بھیج رہے ہیں، تو پھر خدا نے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں رکھ کہ ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کرو

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : ایسے منافقوں اور کافروں سے لڑنا اور انہیں قتل کرنا ضروری ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہوں۔ یہاں ان کفار اور منافقوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا بقائے باہمی کا معاہدہ ہو یا وہ اسلام اور مسلمانوں کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ یہ بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ اسلام جنگ جو مذہب نہیں اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جو صلح جو ہوں اور اسلام کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ یہاں اس بات کا اعادہ فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑنے کی تمہیں اجازت نہیں جو تمہاری حلیف قوم کے ساتھی ہیں یا وہ تمہارے ساتھ مل کر لڑنا یا تمہارے مخالفوں کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تمہیں ہرگز نہیں لڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا۔ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ لڑنے سے گریز کریں اور تم سے صلح کرنا چاہتے ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے لڑنے کا تمہارے لیے کوئی جواز نہیں بنایا۔ مسائل : 1۔ عہد و پیمان والے کفار کے ساتھ لڑنا جائز نہیں۔