سورة النسآء - آیت 88

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فریق بن گئے ہو؟ حالانکہ اللہ نے ان بدعملیوں کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی ہیں انہیں الٹآ دیا ہے (یعنی وہ راہ حق سے پھر چکے ہیں) کیا تم چاہتے ہو، ایسے لوگوں کو راہ دکھا دو جن پر خدا نے راہ گم کردی (یعنی جن پر خدا کے قانون سعادت و شقاوت کے بموجب ہدایت کی راہ بند ہوگئی ہے) اور (یاد رکھو) جس کسی پر اللہ راہ گم کردے (یعنی جس کسی پر اس کے قانون کا فیصلہ لگ جائے کہ اس کے لیے راہ پانا نہیں) تو پھر تم اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکال سکتے

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : منافق مسلمانوں میں بزدلی اور انتشار پیدا کرتے ہیں‘ جس سے مسلمانوں کو چوکنا اور بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ مکہ معظمہ اور اس کے گردونواح میں ایسے لوگ اور قبائل موجود تھے جو دنیاوی اغراض اور تعلق داری کی بنا پر کفار کے ساتھ مسلمانوں سے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے۔ جب ہجرت کا فیصلہ کن حکم آیا کہ دارالکفر کو چھوڑ کر سب مسلمان دارالاسلام مدینہ میں جمع ہوجائیں تاکہ طاقت مجتمع، مرکز مضبوط، اور دین پر عمل کرنے کیلئے بہتر ماحول پاسکیں تو انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ترجیح دینے کی بجائے کفار کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ مدینہ میں رہنے والے منافقین کی حالت بھی یہی تھی کہ جب کبھی فیصلہ کا وقت آتا تو ان کی ہمدردیاں کفار اور یہود و نصاری کے ساتھ ہوا کرتی تھیں۔ جس کا مظاہرہ وہ غزوۂ احد کے وقت کرچکے تھے۔ جو نہی مسلمانوں سے مشکل وقت گزر جاتا تو یہ لوگ قسمیں کھا کر اپنی صفائی پیش کرتے جس سے کئی سادہ لوح مسلمان متاثر ہو کر ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے حق میں اپنے ساتھیوں سے بحث کرتے تھے۔ اس صورت حال سے مسلمانوں کے درمیان فکری انتشار ہی نہیں بلکہ دو جماعتیں بننے کا خطرہ پیدا ہوگیا جس پر یہ کہہ کر توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمانو! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم منافقین کے بارے میں آپس میں ایک رہنے کے بجائے دو ہوتے جارہے ہو۔ کیا منافقین کی خاطر باہمی محبت کمزور اور اتحاد کو پارہ پارہ کرلو گے؟ حالانکہ انہوں نے تمہارے مقابلے میں کفار کو ترجیح دی ہے۔ تم انہیں مخلص سمجھتے ہو جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اندرون خانہ تمہیں گمراہ کرنے اور نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ کیا تم ایسے لوگوں کو ہدایت دینا چاہتے ہو جو ہدایت حاصل کرنے کے بجائے تمہیں بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں؟ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہی میں زیادہ کردیا اور انہیں اسی طرف پھیر دیا ہے جدھر وہ رہنا اور جانا پسند کرتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی بھی ہدایت پر نہیں لا سکتا۔ مسائل : 1۔ مسلمانوں کو منافقوں کی حمایت کرنا جائز نہیں۔ 2۔ منافق کو اس کے کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ الٹا کردیتا ہے۔ 3۔ جسے اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔