أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
پھر کیا یہ لوگ قرآن (کے مطالب) میں غور و فکر نہیں کرتے؟ (اور خدا کی دی ہوئی سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے) اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا، اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو ضوری تھا کہ یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے (حالانکہ وہ اپنی ساری باتوں میں اول سے لے کر آخر تک، کامل طور پر ہم آہنگ اور یکساں ہے)
فہم القرآن : ربط کلام : اگر آدمی قرآن مجید کے نصائح اور فرمودات پر غور کرے تو اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ قرآن تضادات کے بجائے سیدھی اور صاف بات کہتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید پر آدمی مخلصانہ طریقہ پر غور اور عمل کرے تو وہ منافقت اور قول و فعل کے تضاد سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ وہ کسی حقیقت کو منوانے کے لیے تحکم کی بجائے سوچ و بچار اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ توحید کی دعوت دی تو زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کی گردش، سمندر کی لہروں اور تہوں گویا کہ بحروبر کی تمام نشانیوں کو پیش فرمایا یہاں تک کہ انسان کو اپنے آپ پر غور کرنے کا حکم دیا اور یہی دعوت قرآن مجید کے بارے میں دی ہے۔ یہاں منافقوں اور قرآن کے منکروں کے اس الزام اور شبہ کی تردید کے لیے خود قرآن ہی کو ان کے سامنے پیش فرمایا کہ آؤ قرآن کا ایک ایک لفظ پرکھو اور اس پر غور کرو۔ اگر تمہارے زعم کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی بجائے کسی اور کا کلام ہوسکتا ہے تو اس میں کسی قسم کے اختلاف، انحطاط اور تضاد کا ثبوت پیش کرو۔ لیکن تم کبھی ایسا نہیں کرسکو گے۔ ہاں یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں ضرور سینکڑوں اختلافات اور تضادات ہوتے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی تحریک اور شخصیت ایسی نہیں جس کے مختلف ادوار اور خطابات و بیانات کو سامنے رکھا جائے تو وہ اونچ نیچ اور تضاد فکری سے خالی ہو۔ کسی لائق سے لائق انسان کی پوری زندگی کا کلام اخلاقی قدروں، علمی بنیادوں اور فکری ارتقاء کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوا کرتا۔ جبکہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ انگوٹھی کے نگینے کی طرح موزونیت لیے ہوئے ہے اس میں شہد جیسی مٹھاس، گلاب کے پھول سے بڑھ کر دلربائی‘ چنبیلی کی خوشبو سے زیادہ کشش، دریا کے طوفان سے زیادہ جوش و خروش اور بجلی کے کڑکے سے زیادہ رعب پایا جاتا ہے۔ قرآن کے بیان کردہ واقعات تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو اس کا ہر لفظ صداقت کا آئینہ دار اور حق کی گواہی دے رہا ہے۔ اس کی پیشگوئیوں کا ایک ایک حرف ٹھیک ثابت ہوا اور ہوتا رہے گا۔ اس کے بتلائے ہوئے معاشی، سیاسی اور سائنسی اصول و حقائق اپنی جگہ پر ہر دور میں مسلمہ رہے ہیں اور رہیں گے۔ ” یہ کتاب تیئس سال کے عرصۂ دراز میں وقفہ وقفہ سے نازل ہوئی۔ اس میں تضاد و اختلاف کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ یہ وہ ہنگامہ خیز اور پُر آشوب عرصہ ہے جس میں داعی اسلام، اس کے ماننے والوں اور خود اس دعوت کو شدید قسم کے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑے گئے اور عقیدت و محبت کے پھول بھی برسائے گے۔ ایسے حالات بھی رونما ہوئے کہ ظاہر بیں نگاہوں کو یقین ہونے لگا کہ چراغ حق ابھی بجھا چاہتا ہے۔ ایسا دور بھی آیا کہ اس چراغ کو پھونکیں مار مار کر بجھانے والے وحشیوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔ صلح بھی اور جنگ بھی، فتح بھی اور پسپائی بھی، خوف بھی اور امن بھی ہر قسم کے حالات روپذیر ہوئے۔ گوناگوں اور بو قلموں ادوار میں یہ کتاب نازل ہوتی رہی اور اس میں ایک بھی ایسی آیت کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جس سے اسلام کے اصولوں میں تضاد کا شائبہ تک ہو۔ علامہ بیضاوی (رح) نے ایک جملہ میں سب کچھ بیان کر کے رکھ دیا۔ (من تناقض المعنی و تفاوت النظم) یعنی اس کی کوئی آیت نہ معنوی لحاظ سے دوسری آیت کے خلاف ہے نہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے کوئی حصہ دوسرے حصہ سے فروتر ہے۔ یہ معانی و حقائق کا سمندر ہے جس کی لہروں میں آویزش نہیں اور جس کی ہر موج اور ہر قطرہ گل کا رنگ و بُولیے ہوئے ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کے کلام الہٰی ہونے کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ [ ضیاء القرآن] تد بّرِ قرآن کی اہمیت : قرآن مجید کی تلاوت کے جو آداب اور تقاضے مقرر کیے گئے ہیں ان میں ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تلاوت کے دوران قرآن مجید کے الفاظ، انداز اور اس کے فرمان پر غور و خوض کیا جائے۔ رسول اللہ (ﷺ) کی عادت مبارکہ تھی کہ تہجد میں تلاوت کے دوران قرآن مجید کے احکامات پر غور کرتے اور عذاب کی آیات پر اللہ تعالیٰ سے پناہ اور معافی طلب کرتے اور زاروقطار روتے۔ جب بشارت کی آیات پڑھتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے حصول کے طلب گار ہوتے۔ قرآن مجید میں تدبّرو تفکّر کرنا حسب لیاقت ہر آدمی پر فرض ہے۔ تدبّرکے اصول : قرآن مجید کے تدبر کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کا معنی اور مفہوم وہی متعین کرنا چاہیے جو قرآن مجید کے الفاظ کے سیاق و سباق اور دعوت قرآن کے مطابق ہو۔ جہاں مفہوم سمجھنے میں مشکل پیش آئے تو حدیث رسول کے ذریعے اس کا مفہوم متعین کرنا چاہیے۔ اگر قرآن و حدیث کے حوالے سے بھی بات سمجھنے میں دقّت محسوس ہو۔ جس کی گنجائش بہت کم ہے تو صحابہ کرام (رض) کے اقوال کے مطابق قرآن کا مفہوم لینا ہوگا۔ کیونکہ صحابہ (رض) براہ راست قرآن کے مخاطب تھے اور انہوں نے بلاو اسطہ رسول اللہ (ﷺ) سے قرآن پڑھا، سنا اور سمجھا تھا۔ محض عربی لغت اور ادبی محاورات کی بنیاد پر قرآن مجید کا معنی و مفہوم متعین کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس لیے علماء نے قرآن مجید سے مسائل اخذ کرنے اور اس کی تفسیر کے لیے کچھ اصول مقرر کیے ہیں۔ جب تک ان اصولوں کا خیال نہ رکھا جائے۔ آدمی نہ صرف خود بھٹک سکتا ہے بلکہ دوسروں کی گمراہی کا سبب ثابت ہوگا۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ دین اور قرآن پر علماء کی اجارہ داری چہ معنیٰ دارد؟ ہر کسی کو قرآن و سنت سے مسائل کے استنباط کا حق ہونا چاہیے۔ اس مغالطہ کی عام طور پر دو وجوہات ہوتی ہیں۔ اکثر لوگ اپنی سادگی اور اخلاص کی بنیاد پر جبکہ دوسرے اس زعم میں مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم علماء سے زیادہ سمجھدار اور پڑھے لکھے ہیں۔ ذرا غور سے سوچاجائے تو دونوں قسم کے حضرات کا مطالبہ اور موقف دنیا کے مسلَّمہ اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ دنیا میں کونسا ایسا فن ہے جسے مستقل اختیار کرنے کے لیے استاد اور تجربہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا حکمت اور ڈاکٹری نہ جاننے والا مریض کا باقاعدہ علاج کرسکتا ہے؟ اسے مریض کی جان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ کوئی معمولی عقل والا جان بوجھ کراناڑی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے کے لیے آمادہ ہوگا؟ دور نہ جائیں ایک اَن پڑھ اور دیہاتی نے اپنا مکان بنانا ہو تو وہ کسی ناتجربہ کار کاریگر سے کچا مکان بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ آپ دنیا میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ دکھا سکیں گے جس میں ریاضی کے ٹیچر کو اردو پڑھانے کے لیے اور انگلش جاننے والے کو عربی کا سبجیکٹ دیا جاتا ہو؟ کیا ایسی اجازت دینے والے ادارہ کا سربراہ دانشور تسلیم کیا جائے گا؟ نہیں ! تو پھر دین کا معاملہ اتنا عارضی اور ہلکا ہے کہ اس کی باقاعدہ تبلیغ و تدریس اور مسائل کے استدلال کے لیے ہر کسی کو اجازت دے دی جائے۔ اس کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ غیر عالم قرآن سمجھنے یا کسی کو مسئلہ بتلانے کی کوشش نہ کرے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی باقاعدہ تدریس و تبلیغ اور قرآن و سنت سے مسائل مستنبط کرنا چاہتا ہے تو اسے باضابطہ طور پر عربی جاننا اور قرآن و حدیث کا علم سیکھنا چاہیے ورنہ وہ گمراہی کا سبب بنے گا جس سے رسول اللہ (ﷺ) نے دوٹوک الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ (عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما-، قال: سمعت رسول الله (ﷺ) يقول: «إنَّ اللهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعاً يَنْتَزعهُ مِنَ النَّاسِ، وَلكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِماً، اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوساً جُهَّالاً، فَسُئِلُوا فَأفْتوا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأضَلُّو) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم] ’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ( ﷺ )کو یہ فرماتے سنا: ’’اللہ تعالیٰ دین کے علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے بلکہ اہل علم کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ دیہاتی کی غلط فہمی اور مفکر اسلام حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا جواب : بسا اوقات اپنی کم فہمی اور علمی کم مائیگی کی بنیاد پر آدمی قرآن مجید میں تضادات محسوس کرتا ہے۔ ایسا ہی تأثر اس اعرابی کا تھا جس نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے سامنے یہ اعتراضات کئے کہ دیکھئے اس مقام پر قرآن مجید میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ اسے کیا خبر تھی کہ میں جس شخصیت کے سامنے یہ اعتراضات رکھ رہا ہوں اسے تو سرور دو عالم (ﷺ) نے فہم دین کی دعا دی تھی جس کی برکت سے وہ مفکر اسلام ہوئے۔ چنانچہ جب حضرت ابن عباس (رض) نے ایک ایک کر کے تسلی بخش جواب دیے تو اعرابی پکار اٹھا کہ واقعی قرآن مجید میں کسی قسم کے تضاد اور اختلاف کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے انشراح صدر اور دلچسپی کے لیے من و عن اس مکالمے کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک آدمی نے کہا کہ قرآن میں کئی آیات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ پھر اس نے قرآنی آیات کا اختلاف پیش کیا کہ ایک آیت میں ہے کہ قیامت کے دن لوگ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے دوسری آیت میں ہے کہ وہ آمنے سامنے آکر ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ ایسے ہی ایک آیت میں ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے کچھ چھپا نہیں سکے گا۔ دوسرے مقام میں ہے کہ مشرک کہیں گے کہ ہمارے رب ہم نے شرک نہیں کیا۔ پھر ایک آیت میں آسمان کی پیدائش زمین سے پہلے ذکر کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری آیت میں زمین کی پیدائش کا آسمان سے پہلے ذکر ہوا ہے۔ ایک اور مقام میں ہے اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا غالب، حکمت والا، سننے والا اور جاننے والا تھا گویا کہ اب نہیں۔ ان اعتراضات کا جواب عبداللہ بن عباس (رض) نے اس طرح دیا کہ جس آیت میں ہے کہ لوگ آپس میں سوال نہیں کریں گے۔ وہ پہلے نفخہ کا ذکر ہے اور جس آیت میں ایک دوسرے سے سوال کرنے کا تذکرہ ہے وہ دوسرے نفخہ کے بعد ہوگا۔ وہ جو کہیں گے کہ ہمارے مالک ہم مشرک نہیں تھے۔ تو یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو بخش دیں گے تو مشرک آپس میں کہیں گے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کو کہتے ہیں کہ ہم نے شرک نہیں کیا تھا۔ اس وقت ان کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں بولیں گے۔ جب مجرم جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو چھپایا نہیں جاسکتا تب کافر کہیں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے! !! زمین و آسمان کی پیدائش میں اختلاف کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے زمین کو دو دنوں میں پیدا فرما کر پھر آسمان کو پیدا کیا آسمان کو دو دنوں میں برابر کر کے زمین کو پھیلایا اس میں سے پانی‘ پہاڑ‘ ٹیلے اور جو کچھ آسمان و زمین کے درمیان ہے دو دنوں میں بنایا لہٰذا زمین اور اس کی تمام اشیاء چار دن اور آسمان دو دنوں میں پیدا کیا گیا۔ آخری اعتراض تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ماضی میں تھیں اب نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ازل سے ہی یہ اللہ کی صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر دکھاتا ہے۔ یہ سارا قرآن اللہ کی طرف سے ہے تجھے اس میں اختلاف محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ ونفخ فی الصور.....] مسائل : 1۔ قرآن مجید میں تدبر و تفکّر کرنا چاہیے۔ 2۔ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے اس میں تعارض نہیں پایا جاتا۔ 3۔ قرآن مجید اگر اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا تو اس میں بے شمار اختلافات پائے جاتے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے : 1۔ قرآن کے بارے میں کفار کا الزام۔ (الفرقان :4) 2۔ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (الشعراء :192) 3۔ قرآن کسی کاہن و شاعر کا کلام نہیں۔ (الحاقہ : 41، 42) 4۔ یہ شیطان کی شیطنت سے پاک ہے۔ (التکویر :25)