وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمار لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔
فہم القرآن : ربط کلام : جہاد کے متعلق خطاب جاری ہے اور اس میں مظلوم کی مدد کرنا لازم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وطن اور گھر کی محبت انسان ہی نہیں درندوں اور پرندوں کے دل میں بھی پیدا فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درندے اپنی غار کی اور پرندے اپنے گھونسلے کے ایک ایک تنکے کی حفاظت کرتے ہیں اور ہر جاندار شام کو اپنے ٹھکانے کی طرف پلٹتا ہے۔ کوئی جاندار اپنے گھر اور وطن کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ لیکن جب کسی کو اس قدر ستایا جائے کہ اسے اپنی جان کے لالے پڑجائیں تو وہ ہر چیز چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہی صورت انسان کی ہے جب مکہ معظمہ میں مسلمانوں پر اس قدر مظالم توڑے گئے کہ ظالم اور سفاک لوگوں نے مسلمان خواتین اور معصوم بچوں کو بھی معاف نہ کیا۔ جس کی وجہ سے مرد، عورتیں اور بچے بلبلا اٹھے کہ بارِ الٰہی! ظالموں کی بستی سے نکلنے کے لیے اپنی طرف سے ہمارا سر پرست اور مددگار پیدا فرما۔ تاکہ ہم اپنے ایمان اور جان و مال کو بچا سکیں۔ اس دعا میں کمزور مسلمانوں کی مظلومیت کا نقشہ پیش کرنے کے ساتھ ان کی ہمدردی اور مدد کے لیے مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت واضح کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی جہاد کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں۔ 1۔ دفاعی۔ 2۔ مظلوم مسلمان اور انسانیت کی مدد کرنا۔ 3۔ اللہ کے باغیوں کو سرنگوں کرکے پرچم اسلام کو سر بلند رکھنا۔ کیونکہ زمین و مافیہا اللہ کی ملکیت ہے۔ لہٰذا باغی انسانوں کو سرنگوں کرنا اور رکھنا اللہ والوں کی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک مظلوم انسانیت کی مدد کرنے کا معاملہ ہے دنیا میں دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمان لازوال تاریخ رکھتے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی اغراض کے بجائے محض اللہ کی رضا اور انسانیت کی حمایت کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ ہسپانیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جب عیسائی حکمران راڈرک نے اپنے ہی گورنر کی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کی تو گورنر نے مجبور ہو کر اپنے ہم منصب مسلمان ملک کے سرحدی گورنر موسیٰ بن نصیر کو خط لکھا۔ جس کے جواب میں طارق بن زیاد نے اسپین پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً 8 سو سال تک اسپین امن وامان کا گہوارہ بنا۔ ہسپانوی مورخ اسے ہسپانیہ کی تاریخ کا سنہری دور تصور کرتے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال سندھ میں پیدا ہوئی کہ جب مسلمان مسافروں پر راجہ داہر کے غنڈوں نے حملہ کیا تو ایک مسلمان بیٹی نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو دہائی دی۔ حجاج نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو مظلوموں کی مدد کے لیے بھیجا۔ جس سے تقریباً ایک ہزار سال تک ہندو ستان میں اسلام کا پھریرا بلند رہا اور اس ملک میں وحدت پیدا ہوئی۔ لوگوں کو سیاسی‘ علمی شعور ملنے کے ساتھ امن و سکون نصیب ہوا اور پاکستان وجود میں آیا۔ اسی جہاد کی ترجمانی قادسیہ میں جو اس وقت ایرانی حکومت کا دارالحکومت تھا حضرت ربیع (رح) نے رستم کے سامنے ان الفاظ میں کی تھی : (إِنَّا قَدْ أُرْسِلْنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ ظُلُمَاتِ الْجَھَالَۃِ إِلٰی نُوْرِ الْإِیْمَانِ وَمِنْ جَوْرِ الْمُلُوْکِ إِلٰی عَدْلِ الْإِسْلَامِ) [ البدایہ والنہایہ] ” (ہم خود نہیں آئے) ہمیں بھیجا گیا ہے تاکہ لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر نور ایمان میں لا کھڑا کریں۔ عوام الناس کو بڑے لوگوں کے جورو ستم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام میں زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کریں۔“ مسائل : 1۔ کفار کے مظالم سے مسلمانوں کو چھڑانا چاہیے۔ 2۔ مظلوم کو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن : مظلوم کی مدد کرنا چاہیے : 1۔ مظلوم مسلمانوں کو جہاد کرنے کی اجازت ہے۔ (الحج :39) 2۔ مظلوموں کی مدد کے لیے جہاد کرنا لازم ہے۔ (النساء :75) 3۔ مسلمانوں کو نظر انداز کرنا ظلم ہے۔ (الانعام: 52) 4۔ ظالموں سے سختی سے نمٹو۔ (البقرۃ: 193)