وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
اور اگر ہم ان کے لیے یہ فرض قرار دے دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا کوئی اس پر عمل نہ کرتا۔ اور جس بات کی انہیں نصیھت کی جارہی ہے اگر یہ لوگ اس پر عمل کرلیتے تو ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، اور ان میں خوب ثابت قدمی پیدا کردیتا۔ (٤٤)
فہم القرآن : (آیت 66 سے 68) ربط کلام : منافقین مشکل حکم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے لوگوں پر ایسے احکام نازل کیے جو نرمی اور آسانی پر مبنی ہیں۔ اگر یہ احکام سخت اور مشکل ہوتے تو لوگوں کو ان پر عمل کرنا دشوار اور ناممکن ہوتا۔ اس صورت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اگر ہم لوگوں کو اپنے آپ کو قتل کرنے یا اپنے جگر گوشوں کو گھروں سے نکال دینے کا حکم دیتے یعنی جو نافرمان اور سرکش ہیں انہیں قتل کرنے یا گھروں سے نکال باہر کرنے کا حکم دیتے تو چند لوگوں کے سوا کوئی بھی ان پر عمل نہ کرسکتا۔ یا جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر شرک کی یہ سزا تجویز کی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں تو انہیں قتل کرنا پڑا تھا۔ یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کو اپنے معاملات میں فیصل تسلیم کرو۔ اس میں تمہارے لیے نرمی بھی ہے اور بھلائی بھی۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أَنَّھَا قَالَتْ مَاخُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلّآ أَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِنَفْسِہٖٓ إِلَّا أَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (ﷺ) ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے جو کام گناہ کا نہ ہوتا۔ اگر وہ کام گناہ کا ہوتا تو لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہتے اور آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ اگر منافق اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تو ان کے لیے یہ بہتر اور ایمان کی پختگی کا باعث ہوتا۔ اس کے بدلے انہیں عظیم اجر اور مزید صراط مستقیم کی رہنمائی سے بھی نوازا جاتا۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بظاہر عمل کرنے میں مشکل کیوں نہ ہوں پھر بھی ان پر عمل کرناآدمی کے لیے بہتر ہوا کرتا ہے۔ ابن جریر طبری بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک آدمی نے کہا کہ اگر ہمیں ایسا کرنے کا حکم ہوتا تو ہم ضرور کر گزرتے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے درگزر فرمائی ہے یہ بات آپ (ﷺ) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جن میں پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ایمان ہے۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے ﴿وَلَوْ أَنَّا کَتَبْنَا﴾ تلاوت فرمائی تو آپ (ﷺ) نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ بن رواحہ (رض) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : ( لَوْ أَنَّ اللّٰہَ کَتَبَ ذٰلِکَ لَکَانَ ھٰذَا مِنْ أُولٰئِکَ الْقَلِیْلِ) ” اگر اللہ تعالیٰ یہ کام لازم کردیتے تو عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی انہی تھوڑے لوگوں میں سے ہوتے جو اللہ کا حکم مان کر اپنے آپ کو قتل کرتے۔“ ( ابن کثیر) حضرت عمر (رض) نے اظہار تشکر کے طور پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا بے پناہ فضل و کرم ہوا ہے کہ اس نے ہمیں اپنے آپ کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر یہ حکم نازل ہوجاتا تو ہم اس پر عمل کرنے سے ہرگز گریز نہ کرتے۔ اس بات کا عملی ثبوت انہوں نے غزوۂ بدر کے موقعہ پر دیا تھا کہ جب قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟ تو دو تجاویز سامنے آئیں جن میں حضرت صدیق اکبر (رض) کی رائے یہ تھی کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑدینا چاہیے۔ اس میں مسلمانوں کی مالی امداد کے ساتھ کفار کے لیے ہدایت کا آخری موقعہ فراہم کرنا تھا۔ حضرت عمر (رض) کی تجویز یہ تھی کہ یہ لوگ ناقابل معافی اور ناقابل اصلاح ہیں۔ ان کو قتل کرنے سے ہمیشہ کے لیے کفر کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ ان کی تجویز تھی کہ ہر کوئی اپنے قریبی رشتہ دار قیدی کو قتل کرے سب سے پہلے میں اپنے رشتہ دار قیدیوں کو قتل کروں گا۔ [ الرحیق المختوم‘ غزوۂ بدر کے قیدیوں کا قضیہ] مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرنا ہر حال میں انسان کے لیے بہتر ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عظیم اجر اور مزید ہدایت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ 3۔ صراط مستقیم کی ہدایت اطاعت رسول میں پنہاں ہے۔