أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے انکو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) بتوں اور شیطان کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں (یعنی بت پرستوں) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ (٣٧)
فہم القرآن : (آیت 51 سے 52) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب کے کردار کی مزید تفصیل اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی عبادت اور اطاعت کی جائے وہ طاغوت کی عبادت اور اطاعت ہوگی۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو وقتی طور پر ہزیمت اٹھانی پڑی لیکن اس کے باوجود یہودی سمجھتے تھے کہ مسلمان دن بدن آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے مدینے کا ایک وفد کعب بن اشرف کی سر کردگی میں مکہ معظمہ پہنچا تاکہ کفار کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جاسکے۔ لیکن ابو سفیان اور اہل مکہ یہودیوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے یہ شرط پیش کی کہ جب تک تم ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اکٹھے رہنے کا یقین نہیں دلاتے ہم آپ پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ یہودی مشرک ہونے کے باوجود بتوں کی پوجا سے نفرت کرتے تھے بالخصوص کعب بن اشرف بتوں کو سجدہ کرنے کا سخت مخالف تھا لیکن اہل مکہ کو اعتماد دلانے کے لیے اس نے بتوں کے سامنے سجدہ کیا۔ اس موقعہ پر ابو سفیان نے کعب سے پوچھاکہ ہم تو اتنا علم نہیں رکھتے آپ بتائیں کہ ہم راہ راست پر ہیں یا محمد؟ کعب بن اشرف اور اس کے وفد نے کہا کہ تم زیادہ ہدایت یافتہ ہو جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم نے ان لوگوں کے کردار پر غور نہیں کیا جو اہل کتاب ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود بتوں اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ حسد و بغض میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اہل کفر کو یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ باطل عقائد رکھنے والوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ جس کی مثال آج بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ یہودی اور عیسائی اہل کتاب ہونے کے باوجود باطل مذاہب کے اس قدر دشمن نہیں ہیں جس طرح مسلمانوں کے دشمن ہیں یہی حالت مسلمانوں کے اندر باطل عقائد رکھنے والوں کی ہے۔ وہ اہل توحید اور سنت پر عمل کرنے والوں کی زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔ طاغوت کی پوجا کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ مشرک اور کافرجس طرح چاہیں آپس میں گٹھ جوڑ کرلیں اللہ تعالیٰ کے بغیر ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ یہی کچھ ہوا کہ ٹھیک دو سال کے بعد غزوۂ خندق سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔ (1) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ دَخَلَ النَّبِیُّ (ﷺ) مَکَّۃَ وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلَاث مائَۃٍ وَّسِتُّوْنَ نُصُبًا فَجَعَلَ یَطْعَنُھَا بِعُوْدٍ فِیْ یَدِہٖ وَجَعَلَ یَقُوْلُ ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ﴾ الآیۃ) [ رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب ھل تکسر الدنان التی فیھا الخمر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (ﷺ) مکہ میں داخل ہوئے اور کعبے کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے آپ انہیں اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے گراتے اور کہتے : (حق آ چکا اور باطل بھاگ گیا)۔“ (2) (عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) أَلاَّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنائز] ” ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں مجھے علی بن ابی طالب (رض) نے کہا کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے بھیجا تھا کہ ہر تصویرکو مٹادے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے برابر کردے۔“ مسائل : 1۔ اہل کتاب بتوں اور شیاطین پر ایمان رکھتے ہیں۔ 2۔ اہل کتاب مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ 3۔ اہل کتاب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور لعنتی اپنے لیے کوئی مددگار نہیں پاسکتا۔ تفسیر بالقرآن : طاغوت : 1۔ طاغوت کے انکار کا حکم۔ (النساء :60) 2۔ کفار طاغوت کے ساتھ ہیں۔ (البقرۃ:257) 3۔ کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (النساء :76) 4۔ اہل کتاب میں سے بھی طاغوت کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ:60) 5۔ طاغوت کا انکار کرنے والا مضبوط کڑے کو تھامتا ہے۔ (البقرۃ:256) 6۔ طاغوت کی عبادت سے بچنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ (الزمر :17)