سورة النسآء - آیت 48

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ (٣٥) اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتا ہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : یہودی اخلاقی جرائم کے ساتھ شرک جیسے بدترین گناہ میں ملوث تھے اور ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اور اس نے ہمارے تمام گناہ معاف کردیے ہیں۔ اخلاقی جرائم کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد شرک کے بارے میں واضح کیا ہے کہ جو شخص شرک کی حالت میں فوت ہوگا اسے ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ تمام انبیاء کرام کے کلمے کے پہلے جز میں شرک کی نفی اور دوسرے جز میں توحید کا اثبات ہے۔ اس لیے ان کی دعوت کا آغاز یہاں سے ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور عبادات میں کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ شرک نام ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو ملانا یا اس کی صفات وعبادات میں دوسرے کو برابر یا حصہ دار تصور کرنا۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اس لیے اللہ کا بیٹا قرار دیا کہ وہ سو سال فوت ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کیے گئے، عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی غیر معمولی ولادت، بے مثال معجزات اور ان کی والدہ کی کرامات دیکھ کر انہیں اللہ کا جزء قرار دیا۔ اسی بناء پر رسول اللہ (ﷺ) نے محبت و عقیدت میں مبالغہ کرنے سے منع کیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاس (رض) سَمِعَ عُمَرَ (رض) یَقُوْلُ عَلَی الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِیَّ () یَقُوْلُ لَاتُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم ] ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر (رض) سے سنا کہ وہ منبر پر فرما رہے تھے میں نے نبی کریم (ﷺ) کو ارشاد فرماتے سنا کہ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی شان میں غلو کیا تم میری شان میں اس طرح غلو نہ کرنا۔ میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ یہاں تک کہ آپ (ﷺ) نے اپنی ذات کے بارے میں فرمایا کہ مجھے حضرت یونس ( علیہ السلام) سے نہ بڑھایا جائے۔ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ ﴿ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى ﴾] شرک تمام گناہوں اور جرائم کا منبع ہے جس وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آپ کی ذات اطہر تک تمام انبیاء اور صلحاء نے اس کی مذمت کی ہے خاص کر عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یہ الفاظ ادا کروائے گئے۔ ﴿إِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ﴾ [ المائدۃ:72] ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے یقینًا اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔“ ” رسول اللہ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے کہ محشر میں میری سفارش مشرک کے سوا ہر کلمہ پڑھنے والے کو فائدہ دے گی۔ شرک کرنے والا نہ صرف اپنے خالق ومالک کے ساتھ غدّاری کا ارتکاب کرتا ہے بلکہ وہ اپنے عقیدے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھتا ہے۔ وہ شرک کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں یا اللہ تعالیٰ ان پر اتنا مہربان ہے کہ وہ انہیں کسی صورت ناراض نہیں کرسکتا۔ اس عقیدے کی وجہ سے مشرک کو کذاب کہا گیا ہے۔“ [ الزمر :3] (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () أُعْطِیتُ خَمْساً بُعِثْتُ إِلَی الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الأَرْضُ طَہُوراً وَمَسْجِداً وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِمَنْ کَانَ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ شَہْراً وَأُعْطِیت الشَّفَاعَۃَ وَلَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلاَّ وَقَدْ سَأَلَ شَفَاعَۃً وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ شَفَاعَتِی ثُمَّ جَعَلْتُہَا لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِی لَمْ یُشْرِکْ باللَّہِ شَیْئاً )[ مسند احمد] ” حضرت ابی موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مجھے پانچ خصوصیات عطا کی گئی ہیں مجھے ساری دنیا کے لیے نبی بنایا گیا ہے اور ساری زمین میرے لیے پاک ہے اور مسجد بنا دی گئی ہے اور میرے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں اور میری مدد کی گئی ہے ایک مہینے کی مسافت سے اور مجھے شفاعت کا حق دار قرار دیا گیا ہے اور کوئی بھی نبی ایسا نہیں مگر اس نے سفارش کا سوال کیا اور بے شک مجھے شفاعت کے لیے چن لیا گیا اور میں اپنی امت میں سے ہر اس شخص کی سفارش کروں گا جس نے شرک نہیں کیا ہوگا۔“ مسائل : 1۔ شرک کے علاوہ اللہ تعالیٰ جو اور جس کے چاہے گناہ معاف کردے گا۔ 2۔ شرک بہت بڑا گناہ اور بہتان ہے۔ تفسیر بالقرآن : شرک بدترین گناہ ہے : 1۔ شرک کی ممانعت۔ (البقرۃ :22) 2۔ شرک بڑا ظلم ہے۔ (لقمان :13) 3۔ مشرک ناپاک ہے۔ (التوبۃ:28) 4۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ (الانعام :88) 5۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح :6) 6۔ مشرکوں پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ:72) 7۔ شرک معاف نہیں ہوگا۔ (النساء :48) 8۔ اٹھارہ جلیل القدر انبیاء ( علیہ السلام) کا تذکرہ کر کے فرمایا اگر یہ شرک کرتے تو ان کے اعمال برباد ہوجاتے۔ (الانعام : 83تا86) 9۔ نبی آخری الزماں (ﷺ) کو خطاب کہ شرک سے آپ کے اعمال بھی برباد ہوجائیں گے۔ (الزمر :65)