أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ
جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) گمراہی مول لے رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ۔
فہم القرآن : (آیت 44 سے 45) ربط کلام : سورت کی ابتدا میں تمام انسانوں کو اس کے بعد مسلمانوں کو اور اب اہل کتاب کو مخاطب کیا جارہا ہے۔ اس سورۃ کا آغاز ﴿اَیُّھَا النَّاسُ﴾ کہہ کر کیا اور باور کروایا کہ تم ایک ہی ماں، باپ کی اولاد اور ایک ہی اللہ کی مخلوق ہو لہٰذا تمہیں اپنے خالق سے ڈرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو میاں بیوی کے حوالے سے اور پھر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کے احکام جاری فرمائے۔ اب اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے ان کی غلطیوں کی نشاندھی کرنے کے بعد نہایت ہی خیر خواہی کے انداز میں سمجھانے کے ساتھ مسلمانوں کو ان کے کردار پر کڑی نظر رکھنے اور اپنے آپ کو گمراہی سے بچانے کی تلقین کی گئی ہے اور تسلی دی ہے کہ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کے لیے کافی ہے۔ خصوصی توجہ کے لیے فرمایا کہ کیا تم نے ان لوگوں کے کردار پر غور نہیں کیا ؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔ قرآن مجید نے اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کئی مرتبہ استعمال فرمائے ہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔ ان الفاظ کے اہل علم نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔1۔ کچھ حصہ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے تورات اور انجیل کے کافی حصہ کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر ضائع کردیا تھا۔ جو ان کے ہاں کتابی شکل میں تورات اور انجیل پائی جاتی ہے اس میں بھی بے شمار ترامیم و اضافے کیے۔ اس لحاظ سے تورات اور انجیل کے حقیقی اجزاء تھوڑے ہی باقی تھے۔2۔ یہ کہ تمہیں تورات اور انجیل کی شکل میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اپنے وقت کے مطابق کافی تھے لیکن ان سے دین مکمل نہیں ہوجاتا کہ تم انہیں پر جم کر بیٹھے رہو۔ وہ نامکمل دین تھا لہٰذا اب جامع دین نازل ہو رہا ہے جو عنقریب مکمل ہوجائے گا۔ اس لیے تمہیں جامع اور اکمل دین کی پیروی کرنی چاہیے۔ لیکن تمہاری حالت یہ ہے کہ تم اپنے مفاد اور عناد کی خاطر نہ صرف اس دین سے انحراف کر رہے ہو بلکہ گمراہی کے خریدار بن کر مسلمانوں کی گمراہی کے درپے ہوچکے ہو۔ اس صورت حال سے آگاہ کرکے مسلمانوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں اور ان کے عزائم کو اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بشرطیکہ تم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت پر ثابت قدم رہو۔ اللہ تمہارا سرپرست خیر خواہ اور مددگار ہے۔ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَـرِىْ لَـهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ بِغَيْـرِ عِلْمٍ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ﴾ (لقمان: 6) ’’ اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو بے ہودہ کلام خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکےاور جہالت کے ساتھ گمراہ کرے اور اس دوعت حق کو مذاق بنائے۔ ایسے لوگوں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ ‘‘ گمراہی کے خریدار : دنیا میں گمراہی خریدنے کی کئی شکلیں ہیں : اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مقدم اور بہتر سمجھنے کی بجائے دنیا کے مفاد کو مقدم اور اپنے لیے بہتر تصور کرنا۔ بے حیائی اور برائی کے کاموں کو فروغ دے کر شہرت اور دولت حاصل کرنا۔ دین کو سیاسی اور معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنا۔ شریعت کے حرام کردہ کاروبار کو اختیار کرنا۔ مسائل : 1۔ اہل کتاب گمراہی کے خریدار ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ 2۔ اللہ ہی مسلمانوں کا حمایتی اور مدد گا رہے۔ تفسیر بالقرآن : اہل کتاب کی بدترین تجارت : 1۔ رشوت لینے والے۔ (البقرۃ: 85، 86) 2۔ کفر کا سودا کرنے والے۔ (البقرۃ: 89، 90) 3۔ دین کے بدلے مال بٹورنے والے۔ (البقرۃ:174) 4۔ گمراہی کے خریدار۔ (البقرۃ:175) 5۔ ایمان کے بدلے کفر کو پسند کرنے والے۔ (آل عمران :177) 6۔ دنیا کے بدلے بد عہدی کا ارتکاب کرنے والے۔ (النحل :95) 7۔ اللہ کی آیات کو فروخت کرنے والے۔ (التوبۃ:9)