فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا
پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت ( ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے؟ (٣١)
فہم القرآن : (آیت 41 سے 42) ربط کلام : آخرت کے دن ظالم اپنا انجام دیکھ کر اپنے اعمال کا انکار کرتے ہوئے یہاں تک کہیں گے کہ دنیا میں ہمیں کسی نبی اور مبلغ نے کچھ سمجھایا ہی نہیں تھا۔ اے رب! ورنہ ہم تیری نافرمانی نہ کرتے۔ اس دن خدا کے باغی یہ آرزو کریں گے کاش! ہم زمین میں دھنس جائیں اور ہم پر زمین برابر کردی جائے۔ خواہش کے باوجود نہ چھپ سکیں گے اور نہ ہی وہ کوئی بات چھپا سکیں گے۔ محشر کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اس میں کئی مراحل ہوں گے ہر مرحلہ دنیا کے سینکڑوں سالوں کے برابر ہوگا۔ ان مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر اس بات کا انکار کریں گے کہ الٰہی ہم نے تیری ذات کا نہ انکار کیا اور نہ ہی کسی کو تیرا شریک ٹھہرایا۔ ہمارے ذمہ جو اعمال لگائے گئے ہیں ہم نے یہ ہرگز نہیں کیے۔ انبیاء کے بارے میں کہیں گے کہ انہوں نے ہمیں ایک بار بھی نہ سمجھایا۔ اس دروغ گوئی کی وجہ سے ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔ اب ان کے اعضاء گواہی دیں گے۔ اس کے بعد اور شہادتیں پیش کی جائیں گی جن میں سب سے بڑی اور معتبر شہادت انبیاء کی ہوگی۔ وہ عرض کریں گے اے رب ذوالجلال! ہم نے تیرا پیغام مِن و عَن پہنچا دیا تھا لیکن مجرم پھر بھی نہیں مانیں گے۔ اس پر سرور دو عالم (ﷺ) گواہی دیں گے کہ اے رب کریم ! انبیاء کرام نے تیرا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقے سے پہنچایا تھا۔ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے مجھے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لیے فرمایا میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤ ں؟ حالانکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں! میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی جب اس آیت کریمہ پر پہنچا (پس کیا حالت ہوگی جب ہر امت سے گواہ لائیں گے اور ان سب پر تمہیں گواہ بنا کر لائیں گے۔) آپ نے فرمایا رک جائیے! میں نے دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القرآن] اس شہادت کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے پوچھا :”أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ“ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ تو لوگوں نے کہا کیوں نہیں آپ (ﷺ) نے ہمیں اللہ کے احکام پہنچا دئیے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا : ”أَللّٰھُمَّ اشْھَدْ أَللّٰھُمَّ اشْھَدْ“ اے اللہ ! گواہ رہنا‘ اے اللہ ! گواہ رہنا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] اُمت محمدیہ کی گواہی : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَآأَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا﴾) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا روز قیامت نوح (علیہ السلام) کو پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا یا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا انہوں نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے محمد (ﷺ) اور اس کی امّت۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ مسائل : 1۔ قیامت کے دن ہر امت کا رسول اس پر گواہ ہوگا اور حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) امت محمدیہ اور پہلے انبیاء کے بارے میں گواہی دیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن کافر اور رسول کا نافرمان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی آرزو کرے گا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن ظالم کی آرزوئیں : 1۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی خواہش۔ (النساء : 42، النباء :40) 2۔ دنیا میں واپس آنے کی آرزو۔ (البقرۃ :167) 3۔ دنیا میں لوٹ کر نیک عمل کرنے کی تمنا۔ (السجدۃ:12) 4۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹتے ہوئے کہے گا‘ کاش میں رسول کی اتباع کرتا۔ (الفرقان :27) 5۔ کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (الفرقان :28) 6۔ جہنم کے داروغہ سے درخواست کرنا۔ (الزخرف :77) 7۔ اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو دوگنی سزا دینے کا مطالبہ کرنا۔ (الاحزاب :68) 8۔ اللہ تعالیٰ سے مریدوں کا مرشدوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا تقاضا کرنا۔ (السجدۃ:29)