وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا
بھلا ان کا کیا بگڑا جاتا اگر یہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لے آتے اور اللہ نے ان کو جو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ (نیک کاموں میں) خرچ کردیتے؟ اور اللہ کو ان کا حال کو ب معلوم ہے۔
فہم القرآن : (آیت 39 سے 40) ربط کلام : ریا کاری اور بخل سے اجتناب اور انفاق فی سبیل اللہ تبھی قبول ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین کامل ہو کہ جو کچھ صدقہ وہ کرے یا کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں کرتاقیامت کو اس کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ لوگوں کو اخلاص کے ساتھ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا : 1۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ (آل عمران :182) 2۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے۔ (النساء :40) 3۔ اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (آل عمران :117)