وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ
خبردار تو کسی ایسے کی طاعت نہ کرنا اور نہ اس کی بات ماننا جو بہت ساری قسمیں کھاتا ہے آبرو وباختہ ہے
فہم القرآن: (آیت 10 سے 16) ربط کلام : اہل مکہ قرآن مجید کے دلائل کا جواب نہ پا کر آپ (ﷺ) کو مجنون کہتے تھے اس موقع پر ان کے اس الزام کا صرف یہ جواب دیا گیا کہ عنقریب وقت آئے گا کہ جب یہ دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے۔ آپ (ﷺ) کو حقیقت بتلانے اور تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا اور کون ہدایت یافتہ ہے۔ لہٰذا آپ کو جھوٹے لوگوں کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنا کام پوری مستعدی کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی مداہنت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیات ولید بن مغیرہ، اسود بن یغوث اور اخنس بن شریک میں سے کسی ایک کے بارے میں نازل ہوئیں کیونکہ قرآن مجید نے کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا اس لیے کسی کا نام متعین کرنا مشکل ہے، البتہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ مکہ کے جو سردار نبی (ﷺ) کی مخالفت میں پیش پیش تھے ان میں اکثر کا کردار یہی تھا جس کی ان آیات میں نشاندہی کی گئی ہے، جس شخص میں یہ عاداتیں اور خصائل پائے جائیں اس سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ جو لوگ بھی ایسے شخص کے پیچھے لگیں گے وہ ذلیل ہوں گے۔ مسلمانوں کو اس ذلّت سے بچانے کے لیے واحد مخاطب کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے نبی (ﷺ) سے خطاب کیا گیا ہے کہ آپ کو ایسے شخص کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے جس کا کردار یہ ہے کہ وہ جھوٹی قسمیں اٹھانے والا اور ذلیل آدمی ہے، غیبت کرنے کا عادی ہے اور لوگوں کو بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے ان نقائص کے ساتھ بد اصل بھی ہے یہ شخص ان خرابیوں کا اس لیے عادی ہوچکا ہے کہ یہ مال دار، صاحب اولاد اور افرادی قوت رکھنے والا ہے، اس کے سامنے قرآن مجید کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے دور کی کہانیاں ہیں، عنقریب ہم اس کی ناک ذلیل کریں گے اور یہ ذلیل ہو کررہے گا۔ جس شخص میں یہ عادتیں ہوں اور مال اور افرادی قوت رکھنے والا ہو تو اس کی اصلاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ ایک تو اسے سمجھانا مشکل ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ سمجھتا ہے کہ کہ اگر میں برا ہوتا تو مجھے وسائل اور افرادی قوت کیونکر نصیب ہوتی، اب ان عادتوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ ان کی کراہت اور قباحت سے بچا جائے۔ 1۔ جھوٹی قسمیں اٹھانا فی نفسہٖ بہت بڑا گناہ ہے بڑا گناہ کرنے کے ساتھ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بات پر لوگ اعتماد نہیں کرتے جس وجہ سے اسے بار بار قسمیں اٹھانی پڑتی ہیں یہ شخص اس لیے بھی ذلیل ہوتا ہے کہ یہ اپنی ذات اور مفاد کی خاطر رب عظیم کا نام غلط استعمال کرتا ہے۔ 2۔ لوگوں کی غلطیاں تلاش کرنا اور چغل خوری کرنا بھی ذلیل آدمی کا کام ہوتا ہے۔ دوسروں کی عیب جوئی کرنے والے میں سب سے بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے آپ کو دوسروں سے نیک اور بہتر سمجھتا ہے۔ عیب جو انسان میں عام طور پر یہ غلطی ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ چغل خور بھی ہوتا ہے کیونکہ عیب جوئی کی عادت اسے دوسروں کی چغل خوری پر مجبور کرتی ہے اس وجہ سے وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے۔ 3۔ آدمی کا سخت خو اور ترش رو ہونا بھی ایک بہت بڑا نقص ہے جس شخص میں بے جا سختی اور ترش روئی پائی جائے، عام لوگ تو درکنار اس کے عزیز و اقرباء بھی اس سے نفرت کرتے ہیں اس سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 4۔ ” زَنِیْمٌ“ کے مفسرین نے دو معانی بیان کیے ہیں۔ ” وَلْدُ الزَّنَا“ یعنی حرامی اور بدذات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں ذات پات کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن بسا اوقات کسی ذات اور برادری میں مجموعی طور پر ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جس سے اس برادری کا ہر شخص اس سے متأثر ہوجاتا ہے۔ 5۔ گھٹیا شخص کے پاس مال کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بھی موجود ہو تو اس سے کسی اچھے کام کی توقع رکھنا عبث ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے سامنے اچھے سے اچھے انداز میں بہترین بات کی جائے تب بھی اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتا۔ کیونکہ اچھی بات کو قبول کرنا وہ اپنی انا کے خلاف سمجھتا ہے۔ یہی وہ بری عادات تھیں جس کا ان آیات میں ذکر فرما کر ہر مسلمان کو منع کیا گیا ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دنیا میں رسوا کرتا ہے اور وہ آخرت میں بھی ذلیل ہوگا۔ مسائل: 1۔ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ 2۔ عیب جوئی اور چغل خوری کرنا بدترین عمل ہیں۔ 3۔ برائی اور بخل انسان کو ذلیل کردیتا ہے۔ 4۔ سخت خو اور کمینہ پن ذلت کا باعث بنتا ہے۔ 5۔ کمینے آدمی کے پاس وسائل اور افرادی قوت ہو تو وہ مزید کمینہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ قرآن مجید کی نصیحت کو قصے کہانیاں سمجھتا ہے۔ 6۔ مذکورہ بالا عادات رکھنے والا شخص دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ذلیل ہوگا۔