سورة التغابن - آیت 16

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لہذا جس قدر تم میں استطاعت ہو، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور اسکاحکم سنو اور اطاعت بجالاؤ اور اپنے مال خرچ کرتے رہو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور جو لوگ نفسانی بخل سے محفوظ رہے بس وہی فلاح پانے والے لوگ ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : بیوی، اولاد اور مال کی آزمائش سے سو فیصد بچنا آسان کام نہیں اس لیے ارشاد ہوا کہ اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے حکم کی پیروی کرو۔ ” اللہ“ کے بے شمار احسانات میں سے یہ بھی اس کا عظیم ترین احسان ہے کہ اس نے اپنے بندے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ اس کا ارشاد ہے کہ لوگو! اللہ نے جو تمہیں صلاحیت اور استعداد عطا فرمائی ہے۔ اس کے مطابق اس کا حکم مانو اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور اس کی راہ میں مال خرچ کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے جو لوگ بخل سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہوں گے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ (رض) یَقُولُ قَالَ لَنَا رَسُول اللّٰہِ () وَنَحْنُ فِی مَجْلِسٍ تُبَایِعُونِی عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکُوا باللّٰہِ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُونَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوا فِی مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَعُوقِبَ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَسَتَرَہُ اللّٰہُ فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ إِنْ شَاءَ عَاقَبَہُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْہُ فَبَایَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ) (رواہ البخاری : باب بَیْعَۃِ النِّسَاءِ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے ہمیں ایک مجلس کے دوران فرمایا کہ تم ان باتوں پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا سے بچ کر رہو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر من گھڑت بہتان نہیں باندھوگے، نہ ہی نیکی کے کاموں میں نافرمانی کرو۔ جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے جس نے ان باتوں کا ارتکاب کیا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں سزا دے گا جو اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ جس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے سزا دے اور چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔ حضرت عبادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سب نے ان باتوں پر بیعت کی۔“ (عن عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ بَایَعْنَا رَسُول اللّٰہ () عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ) (مسند احمد، حدیث عبادۃ بن صامت، وقال ھذا حدیث صحیح) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (ﷺ) کی اس بات پر بیعت کی کہ ہم آپ (ﷺ) کا حکم تنگی اور خوش حالی دونوں صورتوں میں مانے گے۔“ مسائل: 1۔ ہر انسان کو اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرنا اور اس کا حکم ماننا چاہیے۔ 2۔ ہر شخص کو اپنی مالی استعداد کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرناانسان کے اپنے لیے بہتر ہے۔ 3۔ جس شخص کو بخل سے بچا لیا گیا حقیقت میں وہی کامیاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فوائد : 1۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا :39) 2۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد :22) 3۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران :134) 4۔ منافق صدقہ کرنے کو جرمانہ سمجھتا ہے۔ (التوبہ :98) 5۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ :99) 6۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ:265) 7۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ:272) 8۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء :114)