سورة الجمعة - آیت 9

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو جب جمعہ کے روز نماز کے لیے ندا کی جائے تو فورا اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے بشرطیکہ تم جانو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : موت کی سختیوں اور آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے ایمانداروں کو پانجگانہ نماز اور جمعہ کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اے ایمان والو! جب تمہیں جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ اور خریدو فروخت بند کر دو۔ اگر تم اس کی حقیقت سمجھتے ہو، تو ایسا کرنا تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین ارشاد فرمائے ہیں۔ 1۔ نماز کے لیے اذان دینا : یہ فرمان بظاہر جمعہ کی نماز کے لیے ہے لیکن اس میں یہ تخصیص موجود نہیں کہ اذان صرف جمعہ کی نماز کے لیے ہی ہونی چاہیے کیونکہ نبی (ﷺ) نے ہر نماز کے لیے اذان اور اقامت کہنے کا حکم دیا ہے۔ جہاں تک اذان کے الفاظ کا تعلق ہے اس کا ثبوت صرف احادیث سے ملتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث رسول کے بغیر قرآن مجید کو کما حقہ سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے جو لوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ بھی نماز کے لیے اذان دینے پر مجبور ہیں۔ 2۔ اس آیت میں نماز جمعہ کا حکم دیا گیا ہے جس کے لیے ہر قسم کا کاروبار چھوڑ کر حاضر ہونا فرض ہے۔ نماز جمعہ کی رکعات کے بارے میں بھی احادیث ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رکعات کتنی ہونی چاہیے اور خطبہ جمعہ کا وقت اور انداز کیا ہونا چاہیے۔ 3۔ یہاں نماز جمعہ کو اللہ کے ذکر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ العنکبوت آیت 45میں نماز کے فائدے ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یقینانماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور یہ اللہ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ ذکر کی جامع تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کے ساتھ اس کی ذات اور صفات پر کامل یقین رکھتے ہوئے اسے دل، زبان اور عمل کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ تمام عبادات ذکر ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن ان کی ادائیگی کے بعد بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کو کثرت کے ساتھ یاد رکھاکرو۔ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَتَطَھَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ ثُمَّ ادَّھَنَ أَوْ مَسَّ مِنْ طِیْبٍ ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ اثْنَیْنِ فَصَلّٰی مَاکُتِبَ لَہٗ ثُمَّ إِذَاخَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ غُفِرَ لَہٗ مَابَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب لایفرق بین اثنین یوم الجمعۃ) ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور حسب توفیق صفائی کی پھر اس نے تیل یا خوشبو لگائی پھر وہ مسجد آیا اس نے دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالی اور جو اس کے مقدر میں نماز ہے اسے ادا کیا پھر امام کے خطبہ کے دوران خاموش رہا۔ اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ (عَنْ أَبِی الْجَعْدِ الضَّمْرِیِّ وَکَانَتْ لَہٗ صُحْبَۃٌ عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَھَاوُنًا بِھَا طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ) (رواہ النسائی : باب التشدید فی التخلف عن الجمعۃ) ” حضرت ابو الجعد الضمری کو نبی کریم (ﷺ) کی رفاقت حاصل رہی وہ نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو آدمی تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اللہ رب العزت اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ () یَقُوْلُ نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ القِیَامَۃِ بَیْدَ أَنَّھُمْ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا ثُمَّ ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ فَالنَّاسُ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ الْیَھُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ) (رواہ البخاری : باب فرض الجمعۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم آخر میں آنے کے باوجود قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے بے شک یہود ونصاریٰ ہم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان پر ہفتہ اور اتوار کے دن کی عبادت فرض کی گئی انہوں نے اس میں اختلاف کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت سے نوازا یہودی اور عیسائی ایام کے معاملہ میں ہمارے تابع ہیں یعنی شمار کرنے میں جمعہ کا دن پہلے ہفتہ اور اتوارکے دن بعد میں آتے ہیں۔ یہود ہفتہ اور عیسائی اتوار کے دن عبادت کرتے ہیں اور ہمارے لیے جمعہ افضل قرار دیا گیا ہے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِ () قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ رَمْیُ الْجِمَارِ وَالسَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لإِقَامَۃِ ذِکْرِ اللَّہِ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ کَیْفَ تُرْمَی الْجِمَارُ) ” حضرت عائشہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا رمی جمار اور صفامروہ کی سعی کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِیْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ) ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ ایام میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا جنت سے اخراج ہوا، اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَائِرُ) (رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور پہلا جمعہ دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَی الْجُمُعَۃَ، فَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ، غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ، وَزِیَادَۃُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَی فَقَدْ لَغَا) (صحیح مسلم، بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ فِی الْخُطْبَۃِ) حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے اچھے طریقہ سے وضو کیا پھر جمعہ پڑھنے آیا غور سے جمعہ سنا اور خاموش رہا اس کے اس جمعہ اور گزرے ہوئے جمعہ کے درمیان جو بھی گناہ ہوتے ہیں وہ معاف کردیے جاتے ہیں اور تین دن زیادہ کے بھی، آپ (ﷺ) نے مزید فرمایا کہ جس شخص نے کنکری کو چھوا اس نے فضول کام کیا۔ مسائل: 1۔ جمعہ اور باقی نمازوں کے لیے اذان دینا لازم ہے۔ 2۔ جمعہ کی اذان ہو تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جمعہ کے لیے حاضر ہونا چاہیے۔ 3۔ نماز اور جمعہ اللہ کا ذکر ہے۔ تفسیر بالقرآن: نماز کی فرضیت اور فضیلت : 1 رسول اللہ (ﷺ) کو نماز کا حکم۔ (العنکبوت :45) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم :37) 3۔ حضرت موسیٰ (ﷺ) کو نماز کا حکم۔ (یونس :87) 4۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نماز کا حکم۔ (مریم :31) 5۔ بنی اسرائیل کو نماز کا حکم۔ (البقرۃ:83) 6۔ تمام امتوں کو اقامت صلوٰۃ کا حکم۔ (البینہ :5) (الحج :41)