عَسَى اللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَدِيرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور ان کے درمیان، جو تمہارے دشمن ہیں، دوستی پیدا کردے اور اللہ قدرت والا ہے اور غفور رحیم ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس سورت کی پہلی آیت میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ قلبی تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے جس میں ایمانداروں کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور ہے اس لیے انہیں تسلی دی گئی ہے کہ دل چھوٹا نہیں کرنا۔ عنقریب اللہ تعالیٰ وقت لانے والا ہے جب تمہارے دشمن ایمان لے آئیں گے اور تم آپس میں شیرو شکر ہوجاؤ گے۔ رب ذوالجلال کا حکم پاتے ہی صحابہ کرام (رض) نے کفار کے ساتھ اپنی رشتہ داریوں اور تعلقات کو ختم کرلیا کسی نے اپنی کافر بیوی کو طلاق دی اور کسی نے اپنی اولاد سے رشتہ توڑا۔ یہ بات لکھنا اور بیان کرنا آسان ہے لیکن رشتہ داروں سے لاتعلق ہونا معاشرتی اعتبار سے بہت بڑا چیلنج اور آزمائش ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں انس اور رشتہ داری کی محبت رکھی ہے۔ جس وجہ سے کسی سے لاتعلق ہونا شریف اور ہمدرد شخص کے لیے تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، بے شک صحابہ کرام (رض) ایمان کے بلند درجہ پر فائز تھے مگر تھے توانسان ہی جس وجہ سے ان کے لیے رشتہ داروں سے قطع تعلق ہونا پریشانی کا باعث بنا۔ دوسری طرف کفار نے پراپیگنڈہ کیا کہ مسلمان ایک طرف ہمدردی کرنے اور رشتے جوڑنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف رشتے ناطے توڑ رہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دی کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے درمیان مودَّت پیدا کرے گا، ان کی غالب اکثریت حلقہ اسلام میں داخل ہوگی اور تم ایمان کے رشتے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہوجاؤگے، ایسا ضرور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو جوڑنے اور ہر کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے، قدرت رکھنے کے باوجود لوگوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ اس ارشاد میں مسلمانوں کو اشارے کی زبان میں مکہ فتح ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے جو بہت جلد پوری ہوگئی۔ مسائل: 1۔ ” اللہ“ ہی لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر قدرت رکھنے کے باوجود معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔