رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
پروردگار، ہمیں ظالم گروہ کے لیے آزمائشوں کاموجب نہ بناؤ پروردگار ہمیں بخش دے بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو سب پر غالب اور حکمت والی ہے
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی مزید دعائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان انبیائے میں سر فہرست ہیں جنہوں نے بیک وقت اپنے اہل خانہ اور قوم سے تکلیفیں اٹھانے کے ساتھ ساتھ وقت کے حکمران کے ساتھ مقابلہ کیا اور ان سے اذّیت اٹھائی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی قوم اور حکمرانوں کے ساتھ کشمکش اتنی شدید ہوئی کہ وہ اور ان کے ساتھی پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں معاف فرمابے شک تو ہر اعتبار سے غالب اور حکمت رکھنے والا ہے۔ قرآن مجید نے فتنہ کا لفظ کئی معانی میں استعمال کیا ہے۔ یہاں فتنہ کا لفظ چار معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اکثر اہل علم نے یہاں فتنہ کا مفہوم آزمائش لیا ہے۔ مومنوں کا کفار کے لیے فتنہ بننا اہل علم نے درج ذیل صورتوں میں بیان کیا ہے۔ 1۔ اے ہمارے رب! جب تو مشرکین کودنیا میں عذاب دے تو ہمیں اس عذاب سے محفوظ فرما۔ 2۔ ایمانداروں پرکسی اعتبار سے کفار کا غلبہ پانا اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملنا اگر ایماندار حق پر ہوتے تو ہمیں ان پر غلبہ حاصل نہ ہوتا یہ مومنوں کے لیے تکلیف دہ آزمائش ہے۔ 3۔ کفار کا اہل ایمان پر ظلم اس قدربڑھ جائے کہ ایماندار لوگ ان کے سامنے جھک جائیں اور باقی مسلمانوں کے لیے سبکی کا باعث بن جائیں یہ بہت بڑی آزمائش ہے۔ 4۔ مسلمانوں کا اخلاق اس قدر گر جائے کہ وہ جگ ہنسائی کا باعث بن جائیں۔ ان کے کردار کو کفاراسلام کی توہین کا ذریعہ بنالیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا : ﴿فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (یونس :85) ” تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر ہی توکل کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے سے بچا۔“ نبی (ﷺ) کی دعا : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنَّہُ کَانَ یَدْعُواللَّہُمَّ احْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ قَائِمًا وَاحْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ قَاعِدًا وَاحْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ رَاقِدًا وَلَا تُشْمِتْ بِی عَدُوًّا حَاسِدًا ” اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرٍ خَزَائِنُہُ بِیَدِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ کُلِّ شَرٍّ خَزَائِنُہُ بِیَدِکَ.“ ) (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر : بَابُ جَامِعُ مَا کَانَ یَدْعُو بِہِ النَّبِیُّ (ﷺ) وَیَأْمُرُ أَنْ یُدْعَی بِہِ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! کھڑے، بیٹھے اور نیند کی حالت میں اسلام کے ساتھ میری حفاظت فرما! اور میرے مصائب سے میرے حاسد دشمن کو خوش نہ کر۔ اے اللہ ! جو خزانے تیرے پاس ہیں۔ میں آپ سے ان کی بھلائی کا سوال کرتاہوں اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) مَنْ لَزِمَ الاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضیقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ) (رواہ ابوداؤد : باب الاستغفار، قال البانی ضعیف) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے استغفار کو لازم پکڑ ا، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات عطا فرما دیتا ہے اور ہر تنگی سے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے خیال بھی نہ ہو۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے :” اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ“ اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، علانیہ اور پوشیدہ کیے تمام کے تمام گناہ معاف فرما دے۔“ (رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کی آزمائش سے بچنے کے لیے ایمانداروں کو دعا کرنی چاہیے۔ 2۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیے۔ 3۔ مسلمان کا عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: توبہ و استغفار کی اہمیت : 1۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبہ :112) 2۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ:222) 2۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ:160) 4۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص :67) 5۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المومن : 7تا9) (الفرقان :70)