وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے جو لوگ اس بات کی طاقت نہ رکھتے ہوں کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرسکیں، تو وہ ان مسلمان کنیزوں میں سے کسی سے نکاح کرسکت ہیں جو تمہاری ملکیت میں ہوں، اور اللہ کو تمہارے ایمان کی پوری حالت خوب معلوم ہے۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔، (٢٢) لہذا ان کنیزوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرلو، اور ان کو قاعدے کے مطابق ان کے مہر ادا کرو، بشرطیکہ ان سے نکاح کا رشتہ قائم کر کے انہیں پاک دامن بنایا جائے، نہ وہ صرف شہوت پوری کرنے کے لیے کوئی (ناجائز) کام کریں، اور نہ خفیہ طور پر ناجائز آشنائیاں پیدا کریں۔ پھر جب وہ نکاح کی حفاظت میں آجائیں، اور اس کے بعد کسی بڑی بے حیائی (یعنی زنا) کا ارتکاب کریں تو ان پر اس سزا سے آدھی سزا واجب ہوگی جو (غیر شادی شدہ) آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے۔ (٢٣) یہ سب (یعنی کنیزوں سے نکاح کرنا) تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جن کو (نکاح نہ کرنے کی صورت میں) گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر تم صبر ہی کیے رہو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جو شخص آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرسکتا ہے کیونکہ مسلمان رشتۂ اسلام کے اعتبار سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ لوگوں کے اپنے پیدا کردہ حالات کا نتیجہ ہے کہ ان میں سے کچھ غلام بنا لیے گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب کو آزاد پیدا فرمایا ہے۔ لونڈی سے نکاح کے لیے اس کے مالک سے اجازت لینے کے ساتھ اس کو حق مہر بھی ادا کرنا ہوگا۔ اس لونڈی کا بھی فرض ہے کہ وہ محض شہوت رانی کے بجائے مستقل نکاح کی نیت رکھتے ہوئے پاک دامنی کے ارادے سے ازدواجی بندھن میں آئے اور کسی سے پوشیدہ دوستی رکھنے سے بھی مکمل اجتناب کرے۔ اگر منکوحہ لونڈی بدکاری کا ارتکاب کربیٹھے تو آزاد عورت کے مقابلے میں اسے آدھی سزا ہوگی۔ تخفیف سزا کی بنیادی وجوہات یہ ہیں : 1۔ آزاد عورت کو اپنے خاوند، خاندان اور والدین کی حفاظت ونگرانی حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ لونڈی پر اتنی نگرانی نہیں ہوتی۔ 2۔ لونڈی کسی کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے مجبور ہوتی ہے کہ مالک اسے جہاں اور جن لوگوں کے پاس چاہے کام کے لیے بھیج سکتا ہے جب کہ آزاد عورت اس طرح مجبور نہیں ہوتی۔ 3۔ کسی کی لونڈی ہونے کی وجہ سے نفسیاتی طور پر خاوند کا رعب اور وقار اتنا نہیں سمجھتی جتنا آزاد عورت سمجھتی ہے کیونکہ یہ لونڈی اپنے مالک کے ماتحت ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے لونڈی سے بدکاری ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس وجہ سے سزا میں بھی تخفیف کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چھوڑ کر لونڈیوں سے شادی کرنے کی دو وجوہ بیان کی ہیں انہیں ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ 1۔ آزاد عورت سے شادی کے اخراجات برداشت نہ کرسکتاہو۔ 2۔ آدمی اپنے آپ میں کسی گناہ میں ملوث ہونے کا خوف محسوس کرتاہو۔ ان دو وجوہات کے علاوہ اسے لونڈی سے شادی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ لونڈی سے نکاح کرنے کی قباحتیں : 1۔ غیور آدمی کو یہ بات مسلسل کھٹکتی رہے گی کہ میری بیوی دوسرے کی لونڈی ہے۔ 2۔ لونڈی کی اولاد اس کے خاوند کی بجائے شرعی طور پر آقا کی ملکیت ہوتی ہے۔ 3۔ لونڈی اپنے خاوند کے حق زوجیت ادا کرنے کے علاوہ باقی معاملات میں اپنے آقا کی پابند ہوتی ہے۔ مسائل: 1۔ آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی استعداد نہ ہو تو مومنہ لونڈی رکھنا جائز ہے۔ 2۔ بدکار لونڈی کی سزا نصف ہے۔