سورة الحشر - آیت 8

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

نیز ان اموال فے میں) ان فقراء ومہاجرین کا بھی حق ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حمایت میں لگے رہتے ہیں یہی لوگ حقیقت راست باز ہیں (٥)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 8 سے 9) ربط کلام : مال فئی میں غریب مہاجرین اور مستحق انصار کا حصہ بھی شامل ہوگا۔ مالِ فئی میں ان مسلمانوں کو بھی حصہ ملنا چاہیے جنہیں ان کے مالوں اور گھروں سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں۔ یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں۔ مال فئی میں وہ ایماندار بھی حصہ دار ہیں جو پہلے سے مدینہ میں مقیم ہیں اور اپنے ہاں آنے والے مہاجرین کے ساتھ محبت رکھنے والے ہیں وہ مہاجرین کے لیے ایثار کرتے ہیں حالانکہ وہ خود بھی ضرورت مند ہیں۔ اپنی ضرورت کے باوجود اپنے آپ پر مہاجرین کو ترجیح دیتے ہیں جو شخص شح سے بچا لیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ یاد رہے کہ انسان بخل، گناہ اور ہر قسم کی کمزوری سے اللہ کی توفیق سے بچتا ہے۔ یہاں انصارِمدینہ کی یہ کہہ کر تعریف کی گئی ہے کہ وہ اس قدر مخلص اور ایثار پیشہ لوگ ہیں کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود مہاجرین کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ انصار مدینہ نے اسی وصف کی بنا پر مہاجرین کے ساتھ دلی محبت کا اظہار کیا اور ایثار کی ایسی مثالیں قائم کیں جس کی نظیردنیا میں ملنا مشکل ہے۔ ایمان کی تازگی کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ” شُحَّ“ کا لغوی معنی ہے کنجوسی، بخل مگر جب اصطلاح میں اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کیا جائے۔ ” شُحَّ نَفْسِ“ کہا جائے تو یہ دل کی تنگی، کم حوصلگی اور دل کے چھوٹے پن کا معنی دیتا ہے۔ انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار : مکہ سے ہجرت کرنے والے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرمدینہ آئے تھے جن کے لیے انصار نے اس قدر محبت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا کہ انہوں نے نبی (ﷺ) سے درخواست کی کہ ہمارے اور مہاجرین کے درمیان ہماری جائیدادیں اور باغات تقسیم کردئیے جائیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا ایسا نہیں کیا جائے گا بلکہ تمہادی جائیدادیں تمہارے پاس ہی رہیں گی۔ انصار نے مہاجرین سے کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹائیں تو پیداوار میں آپ برابر کے شریک ہوں گے۔ نبی (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ مہاجرین کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ انصار نے عرض کی تو پھر بھی ہم پیداوار میں انہیں آدھا حصہ دیں گے۔ ایثار کی انتہا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَدِمَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ فَآخَی النَّبِیُّ بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ الْأَنْصَارِیِّ (رض) وَکَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًی فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ وَأُزَوِّجُکَ قَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ دُلُّونِی عَلٰی السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّی اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَی بِہٖ أَہْلَ مَنْزِلِہِ فَمَکَثْنَا یَسِیرًا أَوْ مَا شَاء اللّٰہُ فَجَاءَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ () مَہْیَمْ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَیْہَا قَالَ نَوَاۃً مِّنْ ذَہَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ) (رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب قول اللہ تعالیٰ﴿ فإذا قضیت الصلاۃ﴾) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں عبدالرحمن بن عوف (رض) مدینہ آئے تو نبی اکرم (ﷺ) نے سعد بن ربیع انصاری اور ابن عوف (رض) کے درمیان مواخات قائم کی سعد مال دار آدمی تھے انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے کہا میں اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور آپ کی شادی کا انتظام کرتا ہوں عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ تمھارے مال اور اہل میں برکت کرے مجھے بازار کے بارے میں معلومات دیں اس کے بعد عبدالرحمن بن عوف (رض) بازار گئے اور وہاں سے گھی اور پنیر لے کر واپس آئے۔ ہمیں مدینہ میں ٹھہرے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ عبدالرحمن بن عوف (رض) آئے تو ان کے کپڑوں پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں نے انصاری عورت سے شادی کی ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کتنا مہر ادا کیا ہے؟ عبدالرحمن نے کہا گٹھلی کے برابر سونا یا اس سے کچھ کم دیا ہے۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا ولیمہ کریں خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو۔“ ” حضرت عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نے فرمایا : میں آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں کہ ہجرت میں پہل کرنے والے مہاجرین کے حق کا خیال رکھے اور جن انصار نے آپ (ﷺ) کی ہجرت سے پہلے اس گھر اور ایمان میں جگہ بنالی ان کے بارے میں خلیفہ کو نصیحت کرتاہوں کہ ان کی اچھائی قبول کرے اور ان کی کمزوری سے درگذر کرے۔“ (رواہ البخاری : باب ﴿وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ﴾) مسائل: 1۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھر بار چھوڑتے ہیں وہ اپنے ایمان میں سچے ہوتے ہیں۔ 2۔ جو لوگ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کے باوجود ان کی ضرورت کے لیے ایثار کرتے ہیں وہ فلاح پائیں گے۔ 3۔ جو دل کی بخیلی سے بچالیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ تفسیربالقرآن : کامیاب ہونے والے لوگوں کے اوصاف : 1۔ جو اللہ کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں وہ کامیاب ہیں۔ (الاحقاف : 13، 14، حم السجدۃ:30) 2۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں وہ کامیاب ہوں گے۔ (البقرۃ:82) 3۔ اللہ سے ڈرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ (الرحمن :46) 4۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ (النساء :13) 5۔ جو برائی سے بچ گیا اس پر اللہ کا رحم ہوا، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن :9)