سورة المجادلة - آیت 19

اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

شیطان (اور اس کی قوتیں) ان پر مسلط ہوگئی ہیں پس انہوں نے خدا کے ذکر اور اس کے رشتے کوفراموش کردیا ہے یہ حزب الشیطان (یعنی شیطان کی جماعت) ہے اور جان رکھو کہ آخر کار حزب الشیطان کے لیے نقصان اور خسران ہی ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 19 سے 20) ربط کلام : جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسمیں اٹھانے کی وجہ سے منافق اور برے شخص پر شیطان مسلّط ہوجاتا ہے جس وجہ سے یہ لوگ اللہ کی ذات اور بات کو بھول جاتے ہیں۔ استحوذ کا معنٰی اثر کرنا، زیر کرنا، قابو پانا، قبضہ کرنا اور غصب کرنا ہے۔ منافق کی منافقت اور برے کی مسلسل برائی کی وجہ سے شیطان اس پر اس طرح مسلّط ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو اللہ کی یاد کی طرف آنے ہی نہیں دیتا حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ شیطان کا لشکر ہوتے ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شیطان کا لشکر بالآخر نقصان پائے گا۔ بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہر صورت ذلیل ہوں گے۔ قرآن مجید میں لفظ ذکر کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کا فرمان ہے۔ انسان پر جب شیطان پوری طرح مسلّط ہوجاتا ہے تو انسان اپنے رب کے حکم اور نصیحت کو کلی طور پر فراموش کردیتا ہے۔ شیطان کی سب سے بڑی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کو پوری طرح اس کے رب سے غافل اور دور کردے۔ جو لوگ اپنے رب سے دور ہوتے ہیں وہ شیطان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ بے شک ظاہری طور پر وہ کتنے ہی شریف نظر آئیں لیکن حقیقت میں وہ شیطان کی فوج کے سپاہی اور اس کے کارندے ہوتے ہیں۔ شیطان کے ساتھی ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آخرت میں ضرورذلیل کرے گا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اَلشَّیْطٰنُ جَاثِمٌ عَلٰی قَلْبِ ابْنِ اٰدَمَ فَاِذَا ذَکَرَ اللّہَ خَنَسَ وَاِذَا غَفَلَ وَسْوَسَ) ( مصنف ابن ابی شیبہ : باب کلام ابن عباس (رض)) ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) کا ارشاد ہے، شیطان ابن آدم کے دل سے چمٹا رہتا ہے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو دور ہٹ جاتا جب وہ ذکر سے غافل ہوتا ہے تو شیطان واپس آکر وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔“ ﴿وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ﴾ (الزخرف :36) ” جو شخص الرّحمان کے ذکر سے غفلت برتتا ہے ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں پھر شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ۔أَنَ النَّبِیَّ () قَالَ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ ) ” حضرت علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا : ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِیَآء الشَّیْطٰنِ اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا﴾ (النساء :76) ” جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی راہ میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو۔ بلاشبہ شیطان کا حربہ نہایت کمزور ہے۔“ مسائل: 1۔ جن لوگوں پرشیطان مسلط ہوجائے وہ اللہ کے ذکر کو بھول جاتے ہیں۔ 2۔ شیطان کے ساتھی آخرت میں ضرور ذلیل ہوں گے۔ 3۔ سن لو! شیطان کے ساتھی بالآخر نقصان پائیں گے۔ 4۔ اللہ کی ذات اور فرمان کو بھول جانے والے لوگ شیطان کے ساتھی ہوتے ہیں۔ 5۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتے ہیں وہ ذلیل ترین مخلوق ہیں۔ تفسیر بالقرآن: شیطان اور اس کے ساتھی ہمیشہ ہمیش نقصان پائیں گے : 1۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلہ :19) 2۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنالیا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء :119) 3۔ شیطان کی دوستی اختیار کرنے والوں پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ (الاعراف :30) 4۔ تم شیطان کے دوستوں سے لڑائی کرو یقیناً شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ (النساء :76) 5۔ جس نے شیطان کو اپنا دوست بنایا وہ خائب و خاسر ہوا۔ (النساء :119) 6۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام ہوگا۔ (الفرقان : 27، 29) 7۔ شیطان انسان کا بدترین ساتھی ہے۔ (النساء :38) 8۔ ” اللہ“ کے بندوں پر شیطان کی کوئی دلیل کار گر نہ ہوگی۔ (بنی اسرائیل :65)