سورة الحديد - آیت 11

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کون ہے جو اللہ کو قرض دے، چاھا قرض، پھر اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لیے بہتر اجر (بھی) ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : مال کی حیثیت بتلانے کے بعد اسے ” اللہ“ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم۔ پہلے حکم فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ تم اس کے دائمی مالک نہیں ہو بلکہ اپنے سے پہلے لوگوں کے وارث ہو۔ جس طرح تم پہلے لوگوں کے وارث بنے ہو اسی طرح تمہارے بعد آنے والے تمہارے وارث ہوں گے۔ پھر ارشادفرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ تم اس کے حقیقی وارث نہیں ہو۔ حقیقی اور دائمی وارث تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جن لوگوں نے الفتح سے پہلے خرچ کیا وہ بعد میں خرچ کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اب چوتھا ارشاد ہوا کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ؟ جو ” اللہ“ کو قرض حسنہ دے گا ” اللہ“ اسے کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس کرے گا اور اسے بہترین اجر عطا فرماۓ گا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بخل سے بچانے کے لیے قرآن مجید میں کئی مقامات پر صدقہ کرنے کو اپنے لیے قرض حسنہ قرار دیا ہے۔ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ مال وہاں خرچ کرتا ہے جہاں اسے فائدہ نظر آتا ہے۔ انسانی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنی فیاضی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو اپنے رب کو قرض حسنہ دے۔ غور فرمائیں ! کہ ” اللہ“ ہی انسان کو سب کچھ عطا کرنے والا ہے اور پھر وہی انسان سے قرض مانگتا ہے اپنے لیے نہیں بلکہ غریبوں، یتیموں، بیوگان اور جہاد کرنے والوں کے لیے۔ اس کی کرم نوازی کی انتہا دیکھیں کہ وہ محتاجوں کے ساتھ تعاون کی ترغیب دیتا ہے تو اسے اپنی ذات کے لیے قرض قرار دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود محتاج لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ نہ کفر و شرک چھوڑتے ہیں اور نہ ہی اس کے حضور جھکنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ صدقہ کرنے والے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کے لیے اجر کریم ہے۔ اجر کریم سے مراد دنیا میں مال کی برکت اور آخرت میں جنت کی نعمتیں ہیں۔ ﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ:261) ” جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ () قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔“ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب آیت ﴿مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ نازل ہوئی تو ابودحداح نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! اللہ تعالیٰ ہم سے قرض کا مطالبہ کرتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں ! اے ابوالدحداح۔ ابودحداح نے کہا کہ میں نے اپنے رب کو وہ باغ قرض دیا جس میں کھجوروں کے چھ سو درخت ہیں۔ پھر وہ اپنے باغ میں آئے اور اس میں ام دحداح اپنے بچوں سمیت بیٹھی ہوئی تھی۔ ابودحداح نے اسے آواز دی تو اس نے ہاں میں جواب دیا۔ ابودحداح نے کہا یہاں سے نکل جاؤ ! بے شک میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے۔“ (مسند البزار : جلدص، 321، قال البانی صحیح) مسائل: 1۔ جہاد فی سبیل اللہ اور محتاجوں پر خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ 2۔ قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس کرے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدقہ کرنے والے کے لیے اجر کریم ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قرض مانگتا ہے : 1۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل :20) 2۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ:265) 3۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 4۔ اللہ اسے بڑھا کر واپس کرے گا۔ (الحدید :11) 5۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 6۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ :261)