سورة النسآء - آیت 17

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لی ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کر ڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 17 سے 18) ربط کلام : اخلاقی بے راہروی کی سزا اور اس کی توبہ اور اب ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جن کی توبہ قبول ہوگی اور جن کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ قرآن مجید کے اسلوب بیان میں بیشمار لطافتیں اور حکمتیں ہیں ان میں یہ بھی حکمت ہے کہ یہ محض قانون اور ضابطوں کی کتاب نہیں کہ جس میں پھیکا پن، جرم کی تفصیل اور صرف سزاؤں کا تذکرہ ہو قرآن مجید کی لطافت و بلاغت یہ ہے کہ وہ کسی قانون اور سزا کو محض ضابطے کے طور پر نہیں بلکہ اسے نصیحت اور خیر خواہی کے طور پر بیان اور نافذ کرتا ہے۔ بدکار لوگوں کی سزا کا ذکر کرنے کے فوراً بعد توبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ جہالت سے سرزد ہونے والے گناہ کے فوراً بعد توبہ کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ البتہ ان لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی جو پے در پے گناہ کرتے رہے یہاں تک کہ موت نے انہیں آ لیا یا وہ کفر کی حالت میں مرے ان کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ عذاب تیار کیا گیا ہے۔ جہالت کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگرد حضرت عکرمہ (رض) فرمایا کرتے تھے جو کام بھی اللہ تعالیٰ کی تابعداری سے خارج ہو وہ جہالت تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا جس شخص سے گناہ سرزد ہو اسے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔ توبہ کے متعلق رسول اللہ (ﷺ) کے ارشادات : 1۔ توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور ہر شخص کی توبہ نزع کے وقت سے پہلے قبول ہو سکتی ہے۔ نزع سے مراد موت کی وہ گھڑی ہے جب مرنے والے کو دنیا کی بجائے آخرت نظر آنے لگتی ہے۔ 2۔ (کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّآئِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ] ” آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں۔“ 3۔ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُغَرْغِرَ نَفْسُہٗ قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ) [ احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب أحادیث رجال من أصحاب النبی (ﷺ) ] ” جس نے موت کے آثار ظاہرہونے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ 4۔ ( اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔“ توبہ کی شرائط : توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر نادم، آئندہ رک جانے کا عہد اور گناہ کے اثرات کو مٹانے کی کوشش کرے۔ مسائل : 1۔ جہالت کی وجہ سے گناہ کرنے والا توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا‘ حکمت والا ہے۔ 3۔ موت کے وقت توبہ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ 4۔ کفار کے لیے دردناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن : کس کی توبہ قبول نہیں ہوتی : 1۔ موت کے وقت توبہ قبول نہیں۔ (النساء :18) 2۔ فرعون کی غرق ہونے کے وقت توبہ قبول نہیں ہوئی۔ (یونس : 90، 91) 3۔ عذاب کے وقت ایمان قبول نہیں ہوتا۔ (المومن :85) 4۔ مرتد کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ (البقرۃ:217)