سورة النسآء - آیت 15

وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ بنا لو۔ چنانچہ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روک کر رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کرلے جائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کردے۔ (١٤)

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 15 سے 16) ربط کلام : معاشرتی اور معاشی استحاصل ختم کرنے کے احکامات کے بعد اخلاقی بے راہ روی کے خاتمہ کا حکم۔ نزول اسلام سے پہلے روم‘ ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ عرب معاشرہ میں ایک طبقہ پرلے درجے کی بے حیائی‘ فحاشی اور بدکاری میں مبتلا تھا۔ بعض شہروں میں جن میں مدینہ بھی شامل تھا باقاعدہ فحاشی کے اڈے قائم ہوچکے تھے۔ بے حیائی کا ارتکاب کرنے والی عورتیں اپنے گھروں پر جھنڈا نما کپڑا لٹکا یا کرتی تھیں تاکہ بے حیالوگ آسانی کے ساتھ راغب ہو سکیں۔ یہ دھندہ کنواری عورتیں ہی نہیں بلکہ شادی شدہ عورتیں بھی کیا کرتی تھیں۔ اسلام نے اس بے حیائی کو روکنے اور ایسے مقدّمات کی تحقیق کے لیے ایک نظام اور طریق کار وضع فرمایا کہ جرم ثابت ہونے پر پہلے نسبتاً ہلکی سزا تجویز کی گئی کہ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت بد کاری کا ارتکاب کرے تو اس پر چار عادل گواہ پیش کیے جائیں جو صرف عادل مردوں سے ہونے چاہییں اگر وہ اسلامی تقاضوں کے مطابق ٹھیک ٹھیک گواہی دیتے ہیں تو پھر ایسی عورتوں کو ان کے گھروں میں اس وقت تک محصور رکھا جائے جب تک اللہ تعالیٰ کوئی اور حکم نازل نہیں فرماتے یا پھر انہیں اس حالت میں موت آ جائے۔ اس سے اگلی آیت میں ہم جنسی کرنے والے دو مردوں کی سزا بیان کی ہے کہ انہیں اس جرم کے بدلے اذیّت دی جائے۔ اگر وہ تائب ہوجائیں اور اپنی اصلاح کا وعدہ کریں تو پھر انہیں چھوڑ دیا جائے یقیناً اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ بعد میں اس سزا میں اضافہ کیا گیا کہ شادی شدہ زانی مرد ہو یا عورت اسے سنگسار کیا جائے اور غیر شادی شدہ مرد ہو یا عورت اسے سو کوڑے مارے جائیں۔ اس کی تفسیر سورۃ نور میں آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ قرآن مجید نے یہاں ﴿ وَالَّذَانِ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے اہل علم نے دو معانی کیے ہیں۔ 1۔ ﴿وَالَّذَان﴾ اسم موصول مذکر کے لیے استعمال ہوتا ہے مؤنث کا مذکر کے تابع ہونے کی وجہ سے یہاں مذکر اشارۃً لایا گیا ہے اس لیے بعض اہل علم نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ﴿ وَالَّذَانِ﴾ کا معنیٰ ہے مرد اور عورت یعنی غیر شادی شدہ۔ 2۔ دو مردوں کا آپس میں ہم جنسی کرنے کے بارے میں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا یہ قوم لوط کا فعل ہے جن کو اس جرم کی پاداش میں زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جا کر الٹا پھینکا گیا پھر ان لوگوں پر آسمان سے سنگ باری کی گئی۔“ قرآن میں ان کے جرم اور اس کی سزا الاعراف آیت 80تا 84کی تلاوت کریں۔ مسائل : 1۔ بدکاری کے ثبوت کے لیے چار گواہ ہونے چاہئیں۔ 2۔ ہم جنسی جرم ہے۔ 3۔ اللہ توبہ قبول فرمانے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ہم جنسی کرنے والوں کی سزا : 1۔ ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف :80) 2۔ ہم جنسی کی سزا۔ (الاعراف :84) بدکاری کی سزا : 1۔ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم۔ (مسلم : کتاب الحدود) 2۔ کنوارے زانی مرد وزن کو سو کوڑے مارنے کا حکم۔ (النور :2) 3۔ تہمت لگانے والے کی سزا۔ (النور :4)