سورة الرحمن - آیت 46

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے روبراکھڑا ہونے سے ڈرتا ہے دوباغ ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 46 سے 47) ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنتیوں کا مقام اور انعام۔ جو شخص قیامت کے دن سے پہلے اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے جنت میں دو باغ ہوں گے۔ اللہ کا خوف اور قیامت کا ڈر ایسا عمل ہے جو انسان کو صراط مستقیم پر گامزن رکھتا ہے، انسان حرام و حلال کی تمیز کرتا ہے، ظلم سے بچتا ہے اور ہر حال میں عدل پر قائم رہتا ہے۔ وہ نیکی کرنے کے باوجود اس پر اتراتا نہیں بلکہ ہر وقت اپنے رب سے لرزاں رہتا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس بنا پر سیدنا ابو بکر صدیق (رض) نے ایک تنکا پکڑ کر کہا تھا کہ کاش! میں انسان کی بجائے ایک تنکا ہوتا تاکہ قیامت کے دن کے حساب و کتاب سے بچ جاتا۔ (سیرت ابوبکر (رض))جس نے اپنے لیے آخرت کی فکر پیدا کرلی اس پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا کیونکہ آخرت کی فکر اور اللہ کے فضل کے بغیر کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا۔ آخرت کی فکر کی بنا پر نبی (ﷺ) نے فرمایا : (عَنِ ابْنِ عَبَّاس (رض) قَالَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ (رض) یَا رَسُول اللَّہِ () قَدْ شِبْتَ قَالَ شَیَّبَتْنِی ہُودٌ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ ﴿عَمَّ یَتَسَاءَ لُونَ﴾ وَ ﴿إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ﴾) (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ الواقعۃ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ابوبکر (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ بوڑھے ہوگئے ہیں آپ نے فرمایا سورۃ ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتسالون اور سورۃ تکویر نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ) (معجم الاوسط : باب من اسمہ محمد قال البزار لیس بہ باس) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردیں گے، محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے اپنے لیے آخرت کو بڑی فکر بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا۔ اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پیدا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی فرماتا ہے۔“ ﴿اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بالْغَیْبِ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّ اَجْرٍ کَرِیْمٍ﴾ (یٰس :11) ” آپ اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرتا اور بغیر دیکھے رحمٰن سے ڈرتا ہے، اسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دیں۔“ مسائل: 1۔ آخرت کی فکر کرنے والے کو جنت میں دو باغ دیئے جائیں گے۔ 2۔ جن اور انسان اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ سے ڈرنے کے فوائد : 1۔ صبر کرو متقین کا انجام بہتر ہے۔ (ہود :49) 2۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النبا : 31تا33) 3۔ متقی کے کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5) 4۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس :26) 5۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس :62) 6۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :34) 7۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد :35) 8۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات :15) 9۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور :17)