وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور ایسا نہ کرو کہ حق کو باطل کے ساتھ ملا کر مشتبہ بنا دو اور حق کو چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو حقیقت حال کیا ہے؟
فہم القرآن : (آیت 42 سے 43) ربط کلام : بنی اسرائیل کو خطاب جا ری ہے۔ دنیا کے فائدے کی خاطر حق و باطل کا التباس نہ کرو۔ بلکہ نماز کی صورت میں حقوق اللہ اور زکوٰۃ کی شکل میں حقوق العباد کا اہتمام کرتے ہوئے نماز میں رکوع کرتے ہوئے اسے جماعت کے ساتھ پڑھا کرو۔ بنی اسرائیل کے علماء اور سیاسی رہنما نہ صرف اپنے مفادات پر شریعت کے احکامات قربان کرتے بلکہ جو احکامات ان کی ” انا“ گروہی مفادات اور سیاسی سوچ کے خلاف ہوتے ان کو ہر ممکن چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ بصورت دیگر اپنے دھڑے کی حمایت کی خاطر ان کی تاویلات کرتے ہوئے اس طرح اپنے عقیدے کے سانچے میں ڈھالتے اور اس طرح التباسِ حق و باطل کرتے کہ پڑھنے اور سننے والا آسمانی کتاب اور علماء کی فقہ‘ فتاو ٰی جات، ذاتی نظریات کے بارے میں فرق نہیں کرسکتا تھا کہ ان میں تورات و انجیل کی اصل عبارت کونسی ہے۔ بلکہ وہ ان کے فروعی مسائل‘ فقہی تاویلات اور اصطلاحات کو بنیادی اور اصل دین تصور کرتا تھا۔ ان کے منصف مزاج لوگ اس بات کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔ (عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: «مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ) (رواہ الترمذی: باب فی فضل النبی ﷺ ]ضعیف[) محمد بن یوسف اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ تورات میں محمد (ﷺ) اور عیسی بن مریم (علیہ السلام) کی صفات لکھی ہوئی ہیں کہ عیسی (علیہ السلام) حضرت محمد (ﷺ) کے ساتھ دفن ہونگے۔ چنانچہ ایک مسیحی فاضل لکھتا ہے : Careful comparison of the Bibles published recently with the first and other early versions will show great differences; but by whose authority the sechanges havebeen made, no one seems to know. (J.R. Dore: op.cit., p.98) ” حال میں (یہ بات 1876میں کہی گئی تھی) شائع ہونے والے بائبل کے نسخوں کا اگر پہلے اور ابتدائی نسخوں سے مقابلہ کیا جائے، تو ان میں بہت زیادہ اختلافات ظاہر ہوں گے۔ لیکن یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ یہ تبدیلیاں کس سند اور اختیار کی رو سے کی گئی ہیں۔“ برنارڈ ایلن (Bernard M.Allen) نے درج ذیل تبصرہ اناجیل اربعہ پر کیا تھا‘ مگر یہی بات عہد عتیق اور بائبل کے دوسرے حصوں پر بھی صادق آتی ہے : We have, therefore, no security that the narratives and sayings as given in the Gospels necessarily represent what actually happened or what was actually said. (B.M. Allen: op. cit., p.9) ” ہمارے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اناجیل میں دیے ہوئے واقعات و اقوال لازماً وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو حقیقت میں واقع ہوا اور جو کہا گیا تھا۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ] یہاں نماز کی تلقین اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دے کر انہیں سبق دیا جا رہا ہے۔ تمہیں اپنے مفادات کے سامنے جھکنے کی بجائے اللہ کے حضور سر نگوں ہونا چاہیے اور لوگوں سے مال بٹورنے کی بجائے زکوٰۃ کی صورت میں خرچ کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی رضا کی خاطر پوری زکوٰۃ ادا کرنے والا نہ بخیل ہوتا اور نہ لوگوں کا مال بٹورتا ہے۔ تنہا نماز پڑھنے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ مل کر رکوع کیا کرو۔ یہودیوں نے اپنی نماز میں رکوع کو خارج کردیا تھا۔ اس لیے رکوع کی ادائیگی کا بالخصوص ذکر فرما کر جماعت کی اہمیت کا احساس دلایا جارہا ہے کہ دین میں صرف نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں بلکہ نماز با جماعت ادا کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ نماز باجماعت : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے۔“ رسول اللہ {ﷺ}نے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والوں کے بارے میں اپنے ارادے کا یوں بھی اظہار فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ) (رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ) ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں تو میں نماز کا حکم دوں نماز کے لیے اذان دی جائے پھر میں کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں نماز سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے پاس جاؤں۔ ان پر ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو پائے ملیں گے تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہوتے۔“ مسائل : 1۔ سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا بڑا گناہ ہے اور یہ یہودیوں کی عادت ہے۔ 2۔ حق جاننے کے باوجود حق بات کو چھپانابڑا گناہ ہے۔ 3۔ زکوٰۃ کی ادائیگی اور نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اقامت صلوٰۃ کے تقاضے : 1۔ پہلے وضو کیا جائے۔ (المائدۃ:6) 2۔ نماز مقررہ اوقات پر ادا کی جائے۔ (النساء :103) 3۔ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھو۔ ( النساء :43) 4۔ نماز میں غفلت اور ریا کاری نہیں ہونی چاہیے۔ ( الماعون : 5، 6) 5۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ ( البقرۃ:43) 6۔ نماز میں عاجزی ہونی چاہیے۔ ( البقرۃ:238) 7۔ نماز خشوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ ( المؤمنون :2) 8۔ اقامت صلوٰۃ کا صلہ۔ (العنکبوت :45) زکوۃ کا حکم اور اسکے فائدے: 1-حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق ویعقوب (علیھم السلام) کو زکوۃ کا حکم ۔ (الانبیاء: 73) 2-حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے اہل خانہ کو زکوۃ کا حکم۔ (مریم: 55) 3-حضرت عیسی علیہ السلام کو زکوۃ کاحکم۔ (مریم: 31) 4-بنی اسرائیل کو زکوۃ کاحکم۔ (البقرہ: 83) 5-تمام امتوں کو زکوۃ کاحکم۔ (البینۃ: 5) 6-زکوۃمال کا تزکیہ کرتی کرتی ہے۔ (التوبۃ: 103) 7-ایمان، نماز اور زکوۃ مومن کو بے خوفاور بے غم کرتی ہے۔ (البقرۃ: 277)