سورة الرحمن - آیت 22

يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان سمندروں سے مونگے اور موتی برآمد ہوتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 22 سے 25) ربط کلام : دونوں سمندروں کے فوائد۔ اللہ تعالیٰ ہی سمندروں سے موتی اور مونگے پیدا کرتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ موتی اور مونگے صرف کڑوے اور کھارے پانی میں پیدا ہوتے ہیں جس کی بالواسطہ طور پر نفی کی گئی ہے۔ اس لیے واحد کی بجائے مِنْہُماَ کی ضمیر لاکر بتلایا ہے کہ ایک نہیں دونوں قسم کے سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ موتی اور مونگے انتہائی قیمتی اور خوبصورت ہیرے ہیں جو زیبائش کے علاوہ کئی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں جو مخصوص قسم کی بیماریوں کا علاج اور تریاق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی انتہا دیکھئے کہ وہ پانی میں کس طرح موتی اور مونگے پیدا کرتا ہے۔ پانی مائع ہے اور اس میں پیدا ہونے والے سیپ اور اس میں بننے والے موتی پتھر کی طرح سخت ہوتے ہیں جو لوہے کی ضرب کے بغیر نہیں ٹوٹتے، جن اور انسان اس پر غور کریں تو انہیں یقین ہوجائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پانی سے موتی اور مونگے پیدا نہیں کرسکتا لیکن اس کی قدرتوں پر غور نہ کرنے کی وجہ سے بے شمار جن اور انسان اپنے رب کی ذات اور اس کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے جنوں اور انسانو! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں ایک نشانی ہے کہ اس نے سمندر میں پہاڑوں کی مانند بیڑے اور جہاز چلا دیئے ہیں۔ بحری بیڑے اور جہاز کے لیے ” لَہٗ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے اسی کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو بحری بیڑے اور جہاز بنانے اور انہیں چلانے کی صلاحیت نہ دیتا اور سمندر کی فضا اور ہوا موافق نہ کرتا تو انسان کسی صورت بھی سمندری سفر اختیار نہ کرتا اور نہ ہی سمندر سے موتی اور جواہرات نکال سکتا تھا۔ قرآن مجید میں یہ بھی موجود ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنوں کے ذریعے سمندر سے موتی اور جواہرات نکالنے کا کام لیا کرتے تھے۔” اور ان کے لیے شیاطین کو مسخر کردیا جو معمار اور غوطہ خورتھے۔“ (صٓ:37) 1۔ نہروں کے ذریعے وہاں تک پانی پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پہنچنے کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دریاؤں کے پانی کو بڑے بڑے ڈیموں میں بند کرلیا جاتا ہے۔ 2۔ سمندر کی سطح پر پلوں کی شکل میں بڑی بڑی سڑکیں بنا دی گئی ہیں یہاں تک کہ سمندر کے پانی کی گہرائیوں میں بحری اڈے قائم کردیے گئے ہیں۔ مختلف سمندروں سے ہر روز کروڑوں ٹن تروتازہ مچھلی نکالی جاتی ہے۔ جسے انسان اپنی خوراک بنانے کے ساتھ ادویات اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ سے بڑے بڑے قیمتی ہیرے، جوہرات ہمیشہ سے نکالے جا رہے ہیں جو بالخصوص عورتوں اور امیر لوگوں کی حسن و زیبائش کے لیے گراں قدر قیمت کے حامل ہیں یہ خوبصورت چیزیں زمین کی سطح پر نہیں پائی جاتیں۔ اب تو سمندر کے پانی سے تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرلیے گئے ہیں نہ معلوم قیامت تک کون کون سی قیمتی اشیا سمندر سے حاصل کی جائیں گی ان کے ذخائر کا کوئی حقیقی اندازہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد سطح سمندر کی طرف آئیں تو دنیا کی تجارت کا ستر فیصد سے زائد حصہ سمندری راستوں کے ساتھ وابستہ ہے جو پرانے زمانے میں کشتیوں کے ذریعے اور آج کل آبدوزوں اور بحری جہازوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ آج کے بحری جہاز اور پہلے وقت کے بادبان بیڑے سمندر میں کھڑے ہوئے دور سے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ جس وجہ سے ان کے لیے ” اَلْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے جس پر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے اگر آدمی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ جو پانی سوئی کے معمولی وزن کو اپنی چھاتی پر برداشت نہیں کرتا وہ ہزاروں ٹن وزنی جہازوں کو نہ صرف اپنے آپ پر برداشت کرتا ہے بلکہ اسے اٹھائے ہوئے ہزاروں لوگوں اور ان کے سامان کو میلوں دور منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کہ جن بھی بحری سفر کے لیے بحری جہاز یا بحری بیڑے استعمال کرتے ہیں یا نہیں البتہ قرآن مجید نے یہاں بھی جنوں اور انسانوں کو مخاطب کیا ہے تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت اور قدرت کو جھٹلاؤ گے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے سمندر میں موتی اور جواہرات پیدا کیے ہیں۔ 2۔ بحری بیڑوں اور جہازوں کا سمندر میں چلنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے۔ 3۔ انسان اور جن دلیل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی کسی قدرت اور نعمت کی تکذیب نہیں کرسکتے۔ تفسیربالقرآن : بحری بیڑوں کا سمندر میں چلنا اللہ کی قدرت کی نشانی ہے : (ابراہیم :32) (یٰس :44) (العنکبوت :65) (الحج :65) (لقمان :31) (الجاثیہ :12)