يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! صبر اختیار کرو، مقابلے کے وقت ثابت قدمی دکھاؤ، اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے جمے رہو۔ (٦٤) اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔
فہم القرآن : ربط کلام : جنت کی نعمتوں کے حصول اور اسلام کی سربلندی کے لیے مومنوں کو امن ہویاجنگ ہر حال میں اللہ سے ڈرنا اور ثابت قدم رہنا ہوگا۔ سورۃ کی اختتامی آیات میں کفار کی دنیاوی شان و شوکت کا بیان ہوا اور اس پر مسلمانوں کو ہدایت فرمائی گئی کہ ہر مسلمان کو زندگی کے نشیب و فراز اور اسلام دشمنوں کے مقابلہ میں صبر و استقلال اختیار کرنا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائی کو اس کی تلقین کرتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ کر صبر و استقلال کا مظاہرہ اور باہم رابطہ رکھتے ہوئے جہاد کی تیاری کرنا چاہیے۔ مشکلات پر قابو پانے کا یہی مؤثر ذریعہ ہے کہ آدمی ایک دوسرے کی ڈھارس بندھاتے ہوئے آگے بڑھے۔ ﴿ رَابِطُوْا﴾ کا دوسرا معنی کفار کے خلاف منصوبہ بندی اور جنگی تیاری کرنا ہے اور رات کے وقت مجاہدین کی نگرانی اور حفاظت کرنے کو رباط کہا گیا ہے۔ (عَنْ سَلْمَانَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ رِبَاطُ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَقِیَامِہٖ وَإِنْ مَاتَ جَرٰی عَلَیْہِ عَمَلُہُ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُہٗ وَأُجْرِیَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ وَأَمِنَ الْفَتَّانَ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ] ” حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن اور رات کا پہرہ مہینہ بھر روزے رکھنے اور ان کی راتوں کا قیام کرنے سے بہتر ہے۔ اگر پہرے دار اسی حالت میں فوت ہوجائے تو جو عمل کرتا تھا اس کا اجر اسے برابر ملتا رہے گا اور اس کا رزق جاری ہونے کے ساتھ وہ آخرت کے فتنوں سے محفوظ رہے گا۔“ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : (اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز] ” اجر ابتداً مصیبت پر صبر کرنے پر ہے۔“ مسائل :1۔ ایمان داروں کو خود صبر کرتے ہوئے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کے ساتھ جہاد کے لیے مستعدرہنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن :صبر کی تلقین : 1۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کا حکم۔ (آل عمران :200) 2۔ کامیاب لوگ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ (العصر :4) 3۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر :10)