سورة النجم - آیت 31

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے، تاکہ برائی کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے اچھے کام کیے انہیں اچھی جزا سے نوازے،

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 31 سے 32) ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر شخص کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ہدایت کے راستے میں گامزن ہے یا گمراہی کے راستے کو اختیار کیے ہوئے ہے اس لیے کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کی سزا دے گا اور جو نیکی کو اچھے طریقے سے کرتے ہیں انہیں جزا دے گا۔ جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی سے بچتے ہیں اگر وہ کسی چھوٹے گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ کیونکہ آپ کا رب بڑی بخشش والاہے اور وہ تمہیں اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تمہاری اپنی ماؤں کے پیٹ میں ابتدا ہوتی ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اپنی پاکدامنی کا دعویٰ نہ کرے کیونکہ گناہوں سے بچنے والوں کو ” اللہ“ اچھی طرح جانتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور بخشش کی وسعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ گناہوں اور بے حیائی سے بچیں گے اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ چھوٹے گناہوں کے لیے ” اَللَّمَمَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مفسرین نے اس کے کئی معانی ذکر کیے ہیں جن کا خلاصہ چھوٹے گناہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان گناہوں کو یوں ہی معاف کردیتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آدمی وضو کرتا ہے تو وضو کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے گناہ ختم کردیئے جاتے ہیں۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے کبیرہ گناہوں کے سوا باقی گناہ بھی معاف کردیئے جاتے ہیں۔ گناہوں کی معافی کی خوشخبری دینے کے بعد حکم دیا ہے کہ اپنی پاک دامنی کا دعویٰ نہ کیا کرو۔ کیونکہ تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے۔ کبیرہ گناہوں کی تفصیل درج ذیل احادیث میں موجود ہے تاہم علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان گناہوں کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے۔ 1۔ جن کی حد مقرر کی گئی ہے۔ 2 ۔جس گناہ پر اللہ اور اس کے رسول نے لعنت کی ہے۔ 3 ۔وہ گناہ بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہوگا جس کے کرنے پر آدمی اصرار اور اس پر خوشی کا اظہار کرے۔ ” اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔“ (النساء :31) خود اپنی یا کسی کے سامنے کسی کی تعریف کرنا جائز نہیں : اپنی تعریف خود کرنا یا کسی کی تعریف اس کے سامنے کرنا کسی معاشرے میں بھی اسے مہذب نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ ایسی حرکت کرنے والا شخص سنجیدہ لوگوں کی نظروں میں گھٹیاتصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ایک شخص نے آپ (ﷺ) کے سامنے اپنے تقویٰ کا اظہار کیا تو آپ (ﷺ) یوں فرمایا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ ()۔۔ التَّقْوٰی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔۔) (رواہ مسلم : باب تحریم ظلم المسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا :۔۔ تقویٰ اس جگہ ہے آپ (ﷺ) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ () أَنْ نَّحْثُوَ فِیْ أَفْوَاہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی کراھیۃ المدحۃ والمداحین قال ابو عیسیٰ ہذا حدیث غریب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے رسول (ﷺ) نے حکم دیا کہ ہم کسی کے منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالیں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () الْکَبَآئِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ) (رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر) ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔“ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں؟ جھوٹی گواہی دینا۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) (رواہ البخاری : باب تعدیل النساء بعضھن بعضا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔“ مسائل: 1۔ زمین و آسمان اور ہر چیز اللہ کی ملک ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بروں کو سزا دے گا اور نیک لوگوں کو جزا دے گا۔ 3۔ کبیرہ گناہوں سے بچنے والے کے چھوٹے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا اور انتہا کو جانتا ہے۔ 6۔ اپنی پاکدامنی کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون پرہیزگاری اختیار کرنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے : 1۔ ” اللہ“ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود :5) 2۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :216) 3۔ ” اللہ“ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ :30) 4۔ ہر گرنے والا پتہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام :59) 5۔ ” اللہ“ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن :19) 6۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام :59) 7۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج :70) 8۔ ” اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل :74) 9۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی واقف ہے۔ ( البقرۃ :235) 10۔ ” اللہ“ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (البقرۃ:233)