وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ
اور (ان لوگوں کو وہ وقت نہ بھولنا چاہئے) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ : تم اس کتاب کو لوگوں کو سامنے ضرور کھول کھول کر بیان کرو گے، اور اس کو چھپاؤ گے نہیں۔ پھر انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سے قیمت حاصل کرلی، اس طرح کتنی بری ہے وہ چیز جو یہ مول لے رہے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : یہودیوں کے من گھڑت بہانے کی تردید کرنے کے بعد انہیں اظہارِ حق کے عہد کی یاد دہانی کروائی گئی ہے۔ یہود و نصاری نہ صرف نبی آخر الزماں (ﷺ) کے اوصاف اور آپ کی نبوت کے ٹھوس دلائل چھپاتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے ہر اس بات کو تورات اور انجیل سے نکال دیا ہے جو ان کے مفادات کے خلاف ہے حالانکہ ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ عہد لیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھپانے کی بجائے انہیں کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرو گے۔ انہوں نے اس عہد کو اس طرح فراموش کردیا اور دور پھینکا جس طرح کوئی شخص کسی چیز کو اپنے پیچھے پھینک کر الٹے منہ دیکھ نہیں سکتا۔ دنیا کے وقتی وقار، عارضی اقتدار، معمولی فائدے اور چند دمڑیوں کی خاطرانہوں نے اللہ کے احکام کو بیچ ڈالا۔ پھر اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے اس پر اترایا کرتے تھے۔ بڑا ہی برا کردار اور سودا ہے جو انہوں نے اختیارکیا۔ حضرت حسن بصری کی والدہ حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کی کنیز تھیں۔ اس بدولت حسن بصری نے حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کے ہاں پرورش پائی وہ اس آیت کی تصریح میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے بالواسطہ امت محمدیہ کے علماء سے بھی لیا ہے کہ وہ حق کو چھپانے کے بجائے اسے ہر حال میں بیان کرتے رہیں گے۔ حضرت حسن بصری (رض) کا اپنا کردار یہ تھا کہ وہ حجاج بن یوسف پر سر عام تنقید کرتے۔ ایک دن حجاج نے انہیں بلا کر تلوار لہراتے ہوئے پوچھاکہ آپ میرے بارے میں یہ یہ باتیں کرتے ہیں؟ حضرت حسن بصری (رض) نے وہی باتیں حجاج کے رو برو کہتے ہوئے فرمایا کہ ہاں جب تک تم ان جرائم سے باز نہیں آؤ گے میں تمہیں ٹوکتا رہوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے مذکورہ آیات کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے سچ بولنے کا وعدہ لیا ہے جس کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے۔ (تفسیررازی) مسائل :1۔ اہل کتاب نے دنیا کے تھوڑے سے مفاد کی خاطر اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈالا اور تھوڑی قیمت کے بدلے بیچ دیا۔