سورة الطور - آیت 33

أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے بلکہ دراصل یہ ایمان نہیں لانا چاہتے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت33سے35) ربط کلام : اہل مکہ کا چوتھا الزام اور اس کا جواب۔ فہم القرآن:میں یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ جب انسان ضد اور تکبر کا شکار ہوجاتا ہے تو اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ اپنے مخالف کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ ایک طرف آپ کو مجنون کہتے اور دوسری طرف یہ الزام دیتے تھے کہ آپ اپنی طرف سے قرآن بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسے اللہ کا کلام قرار دیتے ہیں۔ ان کا قرآن اور نبی کی ذات پر ایمان نہیں تھا اس لیے انہیں اور پوری دنیا کے جنوں اور انسانوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی ایسا کلام بنا لاؤ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو۔ کیونکہ نبی بھی انسان ہے اور تم بھی انسان ہو۔ پھر تم اپنے آپ کو بڑا دانشور سمجھتے ہو اور نبی (ﷺ) کو دیوانہ خیال کرتے ہو۔ اس صورت میں تمہارے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ تم اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ قرآن مجید نے کفار کو یہ چیلنج کئی مرتبہ دیا۔ (البقرۃ: 23،24) ” ہم نے جو اپنے بندے پر اتارا ہے اگر اس میں تمہیں شک ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اگر تم سچے ہو تو ” اللہ“ کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لاؤ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکو گے پس اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“ مسائل: 1۔ کفار کا الزام تھا کہ نبی (ﷺ) اپنی طرف سے قرآن بنا لیتے ہیں۔ 2۔ کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو تو تم بھی اس جیسا کلام بنا کرلے آؤ۔ 3۔ نبی (ﷺ) پر کفار اس لیے الزامات لگاتے تھے کیونکہ ان کا قرآن اور آپ (ﷺ) پر ایمان نہیں تھا۔