كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : موت اور فکر آخرت کے ذریعے نصیحت کی گئی ہے کہ دنیا کے جس جاہ وجلال اور مال پر اترا کر نبی (ﷺ) کی نبوت کا انکار اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں خرافات بکتے ہو یہ تو ختم ہونے والی ہے۔ منکرین توحید و رسالت کا کردار بتلانے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) کو تسلی دیتے ہوئے موت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اے رسول (ﷺ) آپ کے مخالفوں نے دنیا میں ہمیشہ نہیں بیٹھے رہنا بالآخر ہر کسی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور پھر قیامت کے دن تمہارے اعمال کے مطابق تمہیں مکمل جزا اور ان کے کردار کی انہیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ جسے جہنم کی ہولناکیوں سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا یقیناً وہ کامیاب ہوا۔ یہ دنیا کی زندگانی محض نظر کا فریب اور دماغ کا غرور ہے۔ اسی وجہ سے یہ آپ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کی آیات جھٹلا رہے ہیں حالانکہ یہ کرّ وفرّ اور سازو سامان عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں آخرت کی جزا وسزا مستقل اور دائمی ہے۔ جب دنیا عارضی اور موت یقینی ہے تو عقل ودانش کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کی فکر کرنی چاہیے۔ مسائل : 1۔ ہر کسی کو موت آکر رہے گی۔ 2۔ یہ دنیا مکرو فریب کا سامان ہے۔ 3۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ 4۔ جہنم کی آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہونے والا ہی کامیاب ہے۔ تفسیربالقرآن :نیکی کا پورا پورا اجر ملے گا : 1۔ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ (آل عمران :171) 2۔ اللہ تعالیٰ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (ھود :115) 3۔ سب کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ (النساء :173)